Book - حدیث 2239

كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ بَيْعِ الْمُصَرَّاةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ لَا سَمْرَاءَ يَعْنِي الْحِنْطَةَ

ترجمہ Book - حدیث 2239

کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل باب: جس جانور کا دودھ روكا گیا ہو اس کی فروخت کا بیان حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسا جانور خریدا جس کا دودھ روکا گیا تھا تو اسے تین دن تک اختیار ہے (کہ سودا قائم رکھے یا ختم کر دے) اگر وہ جانور کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں بھی دے، گندم نہ دے۔
تشریح : (1)بعض لوگ جب دودھ دینے والا جانور بیچنا چاہتے ہیں تو دو تین دن پہلے اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تھنوں میں دودھ خوب جمع ہو جاتاہے اور بڑے بڑے تھن دیکھ کر خریدار سمجھتا ہے کہ یہ گائے ،بھینس ،بکری یا اونٹنی زیادہ دودھ دینے والی ہے ۔اس طرح وہ زیادہ قیمت دے کر اسے خریدلیتاہے ۔ یہ ایک قسم کا دھوکا ہے ۔ اور دھوکا دینا حرام ہے ۔ (2)اس بیع کو فسخ کرنے کے لیے تین دن کی مدت مقررکی گئی ہے کیونکہ پہلے دن دودھ دوہنے سے تو اس دھوکے کا علم نہیں ہوتا ۔ دوسرے دن دودھ کم ہونے پر یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ماحول کی تبدیلی یا چارے میں کمی بیشی کی وجہ سے ہے ۔ جب تیسرے دن بھی دودھ کم ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ واقعی روکا گیا تھا اور اس طرح دھوکے کا ارتکاب ہوا ہے ۔ (3) واپسی کے وقت ایک ٹوپا کھجوریں دینے کا حکم اخلاقی بنیاد پر ہے تاکہ سودا فسخ ہونے پر اگر بیچنے والے کو ناراضی محسوس ہو تو اس کا کسی حد تک مدار ہو جائے ۔ یہ اس دودھ کی قیمت نہیں جو تین دن تک استعمال کیا گیا ۔ خریدار نے اگر دودھ پیا ہے تو جانور کو چارا بھی کھلایا ہے اور اس کی لازمی ضروریات کا خیال بھی رکھا ہے ۔ (4) بعض حضرات نے اس حدیث کو فقہی اصولوں کے خلاف قرار دے کر نا قابل عمل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : جب کوئی چیز استعمال کر لی گئی ہو تو اس کا متبادل یا تو ویسی اور اتنی ہی چیز ہو سکتی ہے یا اس کی قیمت ،جبکہ کھجوریں نہ تو دودھ کی مثل ہیں ،نہ اس کی قیمت کیونکہ دودھ کم زیادہ ہوتا ہے اور ہر مقدار کی قیمت ایک صاع کھجوریں نہیں ہو سکتیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی اصول قرآن و حدیث کی نصوص سے اخذ کیے جاتے ، نصوص کو فقہی اصولوں پر نہیں پرکھا جاتا کیونکہ قرآن و حدیث اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں اور فقہی اصول انسانی ذہن کی کاوشوں کا نبیجہ ، اس کے علاوہ یہ حدیث فقہی اصولوں کے خلاف بھی نہیں اس کی وضاحت یہ ہے کہ خریدار نے جو دودھ استعمال کیا ہے اس کی مقدار پر اختلاف ہو سکتا ہے ۔ خریدار کم مقدار کا دعویٰ کرے گا جبکہ بیچنے والا زیادہ مقدار کا ۔ جب مقدار ہی متعین کرنا مشکل ہے تو اس کی مثل یا قیمت کا تعین کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس جھگڑے کا حل کے لیے نبی ﷺ نے ایک اوسط مقدار متعین کر دی ہے کہ دودھ کم ہو یا زیادہ ، ایک صاع کھجوریں وصول کر لی جائیں اور اصل مطلوب سے کمی بیشی کونظر انداز کر دیا جائے ۔ گویا یہ بذات خود ایک قانون ہے جو ان خاص حالات کے لیے وضع کیا گیا ہے ۔اسے عام حالات کے عام قوانین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔ (5) کہا جاتا ہے کہ فقیہ راوی اگرکوئی ایسی حدیث روایت کرے جو قیاس کے خلاف ہو تو اس کی یہ روایت قبول ہو گی لیکن اگر کوئی غیر فقیہ صحابی خلاف قیاس حدیث روایت کرے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہ اصول بھی محل نظر ہے ، کیونکہ حدیث کی صحت کا دارومدار راوی کے حافظے اور ثقاہت پر ہے نہ کہ تفقہ اور قوت استنباط پر، اس کے علاوہ یہ حدیث صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں جنہیں غیر فقیہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ، بلکہ یہی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜ سے بھی مروی ہے جو بالاتفاق فقیہ ہیں ۔ اور کہا جاتا ہے کہ فقہ حنفی کا دارومدار حضرت ابن مسعود﷜ کے فتوے پر ہے ۔ دیکھیے :(صحيح البخاري، البيوع ،باب النهي للبائع ان لايحفل الابل والبقر والغنم وكل محلفلة ، حديث:2149) (1)بعض لوگ جب دودھ دینے والا جانور بیچنا چاہتے ہیں تو دو تین دن پہلے اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تھنوں میں دودھ خوب جمع ہو جاتاہے اور بڑے بڑے تھن دیکھ کر خریدار سمجھتا ہے کہ یہ گائے ،بھینس ،بکری یا اونٹنی زیادہ دودھ دینے والی ہے ۔اس طرح وہ زیادہ قیمت دے کر اسے خریدلیتاہے ۔ یہ ایک قسم کا دھوکا ہے ۔ اور دھوکا دینا حرام ہے ۔ (2)اس بیع کو فسخ کرنے کے لیے تین دن کی مدت مقررکی گئی ہے کیونکہ پہلے دن دودھ دوہنے سے تو اس دھوکے کا علم نہیں ہوتا ۔ دوسرے دن دودھ کم ہونے پر یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ماحول کی تبدیلی یا چارے میں کمی بیشی کی وجہ سے ہے ۔ جب تیسرے دن بھی دودھ کم ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ واقعی روکا گیا تھا اور اس طرح دھوکے کا ارتکاب ہوا ہے ۔ (3) واپسی کے وقت ایک ٹوپا کھجوریں دینے کا حکم اخلاقی بنیاد پر ہے تاکہ سودا فسخ ہونے پر اگر بیچنے والے کو ناراضی محسوس ہو تو اس کا کسی حد تک مدار ہو جائے ۔ یہ اس دودھ کی قیمت نہیں جو تین دن تک استعمال کیا گیا ۔ خریدار نے اگر دودھ پیا ہے تو جانور کو چارا بھی کھلایا ہے اور اس کی لازمی ضروریات کا خیال بھی رکھا ہے ۔ (4) بعض حضرات نے اس حدیث کو فقہی اصولوں کے خلاف قرار دے کر نا قابل عمل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : جب کوئی چیز استعمال کر لی گئی ہو تو اس کا متبادل یا تو ویسی اور اتنی ہی چیز ہو سکتی ہے یا اس کی قیمت ،جبکہ کھجوریں نہ تو دودھ کی مثل ہیں ،نہ اس کی قیمت کیونکہ دودھ کم زیادہ ہوتا ہے اور ہر مقدار کی قیمت ایک صاع کھجوریں نہیں ہو سکتیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی اصول قرآن و حدیث کی نصوص سے اخذ کیے جاتے ، نصوص کو فقہی اصولوں پر نہیں پرکھا جاتا کیونکہ قرآن و حدیث اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں اور فقہی اصول انسانی ذہن کی کاوشوں کا نبیجہ ، اس کے علاوہ یہ حدیث فقہی اصولوں کے خلاف بھی نہیں اس کی وضاحت یہ ہے کہ خریدار نے جو دودھ استعمال کیا ہے اس کی مقدار پر اختلاف ہو سکتا ہے ۔ خریدار کم مقدار کا دعویٰ کرے گا جبکہ بیچنے والا زیادہ مقدار کا ۔ جب مقدار ہی متعین کرنا مشکل ہے تو اس کی مثل یا قیمت کا تعین کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس جھگڑے کا حل کے لیے نبی ﷺ نے ایک اوسط مقدار متعین کر دی ہے کہ دودھ کم ہو یا زیادہ ، ایک صاع کھجوریں وصول کر لی جائیں اور اصل مطلوب سے کمی بیشی کونظر انداز کر دیا جائے ۔ گویا یہ بذات خود ایک قانون ہے جو ان خاص حالات کے لیے وضع کیا گیا ہے ۔اسے عام حالات کے عام قوانین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔ (5) کہا جاتا ہے کہ فقیہ راوی اگرکوئی ایسی حدیث روایت کرے جو قیاس کے خلاف ہو تو اس کی یہ روایت قبول ہو گی لیکن اگر کوئی غیر فقیہ صحابی خلاف قیاس حدیث روایت کرے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہ اصول بھی محل نظر ہے ، کیونکہ حدیث کی صحت کا دارومدار راوی کے حافظے اور ثقاہت پر ہے نہ کہ تفقہ اور قوت استنباط پر، اس کے علاوہ یہ حدیث صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں جنہیں غیر فقیہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ، بلکہ یہی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜ سے بھی مروی ہے جو بالاتفاق فقیہ ہیں ۔ اور کہا جاتا ہے کہ فقہ حنفی کا دارومدار حضرت ابن مسعود﷜ کے فتوے پر ہے ۔ دیکھیے :(صحيح البخاري، البيوع ،باب النهي للبائع ان لايحفل الابل والبقر والغنم وكل محلفلة ، حديث:2149)