Book - حدیث 223

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ صحیح حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، أَتَيْتُكَ مِنَ الْمَدِينَةِ، مَدِينَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ: فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، حَتَّى الْحِيتَانِ فِي الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ»

ترجمہ Book - حدیث 223

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ترغیب سیدنا کثیر بن قیس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں دمشق کی جامع مسجد میں سیدنا ابو درداء ؓ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آگیا، اس نے کہا: ابو درداء! میں مدینہ سے آیا ہوں۔۔۔۔ اللہ کے رسول ﷺ کے شہر سے۔۔۔۔ کیوں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ایک حدیث نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں( اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کی زبانی وہ حدیث سنوں۔) ابو درداء ؓ نے فرمایا: آپ تجارت کے سلسلے میں تو نہیں آئے؟ اس نے کہا: جی نہیںَ فرمایا: کسی اور کام سے بھی نہیں آئے؟ اس نے کہا: جی نہیں۔ فرمایا: ( اگر یہ بات ہے تو ایک خوش خبری سن لو:) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا:’’ جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فر دیتا ہے اور فرشتے علم کے متلاشی سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر جھکا دیتے ہیں اور علم کے طلب گار کے لئے آسمان اور زمین کی ہر مخلوق دعائے مغفرت کرتی ہے حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی( اس کے لئے دعائیں کرتی ہیں) اور عالم کو عبادت گزار پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی فضیلت چاند کو باقی تمام ستاروں پر حاصل ہے۔ علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں، نبیوں نے وراثت میں دینار اور درہم نہیں چھوڑے، انہوں نے تو علم کا ترکہ چھوڑا ہے، جس نے اسے حاصل کیا، اس نے( نبیوں کی وراثت میں سے) وافر حصہ پالیا۔‘‘
تشریح : (1) یہ روایت بعض دوسرے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔ (2) علماء کو مسجد میں علم سکھانے کے لیے بیٹھنا چاہیے یا ایسی جگہ علمی مجلس منعقد کرنی چاہیے جہاں کسی کو ان کے پاس آنے سے رکاوٹ نہ ہو اور ہر امیر و غریب،ادنیٰ و اعلیٰ مستفید ہو سکے۔ (3) کسی بڑے عالم سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بہت اچھا کام ہے۔ (4) حصول علم کے لیے سفر کرنے والے سے اللہ کی ہر مخلوق خوش ہوتی اور اسے دعائین دیتی ہے، (5) بالواسطہ سنی ہوئی حدیث کو بڑے عالم سے براہ راست سننے کی کوشش کرنا مستحب ہے، اسے محدثین کی اصطلاح میں عالی سند کا حصول کہتے ہیں۔ (6) استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو علم کی اہمیت اور فضیلت سے باخبر کرے تاکہ اسے خوشی ہو اور شوق میں اضافہ ہو اور اس طرح وہ بہتر استفادہ کر سکے۔ (7) عالم، عبادت گزار سے افضل ہے کیونکہ عالم دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ عابد صرف اپنے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے ورنہ بدعات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے جس سے بجائے اللہ کی رضا حاصل ہونے کے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ (8) علماء کا یہ بہت بڑا شرف ہے کہ وہ نبیوں کے روحانی وارث ہیں۔ لیکن یہ بلند مقام ان پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ حق واضح کریں، حق کی طرف بلائیں، باطل سے منع کریں، اور اس راہ میں کسی خوف یا لالچ کو خاطر میں نہ لائیں، جس طرح انبیائے کرام نے اس علم کی تبلیغ میں جدوجہد، صبر، اخلاص اور للہیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ (9) انبیائے کرام کا مالی ترکہ دوسرے لوگوں کی طرح وارثوں پر تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ عام مسلمانوں پر صدقہ ہوتا ہے۔ (10) انبیاء کی میراث سے حصہ لینے کا دروازہ بند نہیں ہوا، ہر شخص اپنی محنت کے مطابق اس علمی میراث میں سے حصہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ میراث نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس مقدس میراث میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرے۔ (11) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فرشتے طالب علم کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ وضع کا لفظ رفع کے مقابلے میں ہے، اس کے لیے اس کے معنی پروں کا جھکانا بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ قدموں کا لفظ حدیث میں نہیں۔ فرشتوں کا پروں کو جھکانا محبت اور احترام کا اظہار ہے۔واللہ اعلم. (1) یہ روایت بعض دوسرے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔ (2) علماء کو مسجد میں علم سکھانے کے لیے بیٹھنا چاہیے یا ایسی جگہ علمی مجلس منعقد کرنی چاہیے جہاں کسی کو ان کے پاس آنے سے رکاوٹ نہ ہو اور ہر امیر و غریب،ادنیٰ و اعلیٰ مستفید ہو سکے۔ (3) کسی بڑے عالم سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بہت اچھا کام ہے۔ (4) حصول علم کے لیے سفر کرنے والے سے اللہ کی ہر مخلوق خوش ہوتی اور اسے دعائین دیتی ہے، (5) بالواسطہ سنی ہوئی حدیث کو بڑے عالم سے براہ راست سننے کی کوشش کرنا مستحب ہے، اسے محدثین کی اصطلاح میں عالی سند کا حصول کہتے ہیں۔ (6) استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو علم کی اہمیت اور فضیلت سے باخبر کرے تاکہ اسے خوشی ہو اور شوق میں اضافہ ہو اور اس طرح وہ بہتر استفادہ کر سکے۔ (7) عالم، عبادت گزار سے افضل ہے کیونکہ عالم دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ عابد صرف اپنے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے ورنہ بدعات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے جس سے بجائے اللہ کی رضا حاصل ہونے کے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ (8) علماء کا یہ بہت بڑا شرف ہے کہ وہ نبیوں کے روحانی وارث ہیں۔ لیکن یہ بلند مقام ان پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ حق واضح کریں، حق کی طرف بلائیں، باطل سے منع کریں، اور اس راہ میں کسی خوف یا لالچ کو خاطر میں نہ لائیں، جس طرح انبیائے کرام نے اس علم کی تبلیغ میں جدوجہد، صبر، اخلاص اور للہیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ (9) انبیائے کرام کا مالی ترکہ دوسرے لوگوں کی طرح وارثوں پر تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ عام مسلمانوں پر صدقہ ہوتا ہے۔ (10) انبیاء کی میراث سے حصہ لینے کا دروازہ بند نہیں ہوا، ہر شخص اپنی محنت کے مطابق اس علمی میراث میں سے حصہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ میراث نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس مقدس میراث میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرے۔ (11) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فرشتے طالب علم کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ وضع کا لفظ رفع کے مقابلے میں ہے، اس کے لیے اس کے معنی پروں کا جھکانا بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ قدموں کا لفظ حدیث میں نہیں۔ فرشتوں کا پروں کو جھکانا محبت اور احترام کا اظہار ہے۔واللہ اعلم.