Book - حدیث 221

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ حسن حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جَنَاحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «الْخَيْرُ عَادَةٌ، وَالشَّرُّ لَجَاجَةٌ، وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ»

ترجمہ Book - حدیث 221

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ترغیب سیدنا معاویہ بن سفیان ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ نیکی عادت ہے اور گناہ ایک جھگڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لئے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
تشریح : (1) نیکی عادت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھا راستہ انسان کی فطرت ہے۔ ایک فطرت سلیم کا مالک نیکی کے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا، البتہ غلط ماحول کی وجہ سے یا شیطان کے وسوسہ و مکر کی وجہ سے بعض اوقات انسان برائی کی راہ پر چل پڑتا ہے اس کے باوجود اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی انسان گناہ کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی طرف آتا ہے، اسے ایک روحانی خوشی اور دلی اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جو گناہ کی بظاہر خوبصورت زندگی میں حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اسلام کی تعلیمات اسی فطرت سلیم کے مطابق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا فِطرَ‌تَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ‌ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذلِكَ الدّينُ القَيِّمُ) (الروم:30) یعنی اللہ کا قانون و دین وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں، یہی مضبوط دین ہے۔ (2) گناہ ایک جھگڑا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کرتا ہے۔ نفس امارہ اسے گناہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور توبہ سے روکتا ہے جب کہ ضمیر اسے گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگرچہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا بظاہر وہ کام کر رہا ہورا ہے جو اس کا جی چاہتا ہے اس کے باوجود اسے خوشی حاصل نہین ہوتی، دنیا کی دولت اسے اطمینان قلب مہیا کرنے سے قاصر رہتی ہے، سوائے اس کے کہ اس کا ضؐیر بالکل مردہ ہو جائے اور اس کی فطرت مسخ ہو جائے۔ (1) نیکی عادت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھا راستہ انسان کی فطرت ہے۔ ایک فطرت سلیم کا مالک نیکی کے راستے پر چلنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا، البتہ غلط ماحول کی وجہ سے یا شیطان کے وسوسہ و مکر کی وجہ سے بعض اوقات انسان برائی کی راہ پر چل پڑتا ہے اس کے باوجود اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی انسان گناہ کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی طرف آتا ہے، اسے ایک روحانی خوشی اور دلی اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جو گناہ کی بظاہر خوبصورت زندگی میں حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اسلام کی تعلیمات اسی فطرت سلیم کے مطابق ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا فِطرَ‌تَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ‌ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذلِكَ الدّينُ القَيِّمُ) (الروم:30) یعنی اللہ کا قانون و دین وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں، یہی مضبوط دین ہے۔ (2) گناہ ایک جھگڑا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کرتا ہے۔ نفس امارہ اسے گناہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور توبہ سے روکتا ہے جب کہ ضمیر اسے گناہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگرچہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا بظاہر وہ کام کر رہا ہورا ہے جو اس کا جی چاہتا ہے اس کے باوجود اسے خوشی حاصل نہین ہوتی، دنیا کی دولت اسے اطمینان قلب مہیا کرنے سے قاصر رہتی ہے، سوائے اس کے کہ اس کا ضؐیر بالکل مردہ ہو جائے اور اس کی فطرت مسخ ہو جائے۔