Book - حدیث 2205

كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ السَّوْمِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَقَالَ لِي: «أَتَبِيعُ نَاضِحَكَ هَذَا بِدِينَارٍ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ نَاضِحُكُمْ إِذَا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ: «فَتَبِيعُهُ بِدِينَارَيْنِ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ» ، قَالَ: فَمَا زَالَ يَزِيدُنِي دِينَارًا دِينَارًا، وَيَقُولُ مَكَانَ كُلِّ دِينَارٍ: «وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ» حَتَّى بَلَغَ عِشْرِينَ دِينَارًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ أَخَذْتُ بِرَأْسِ النَّاضِحِ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «يَا بِلَالُ أَعْطِهِ مِنَ الْغَنِيمَةِ عِشْرِينَ دِينَارًا» ، وَقَالَ: «انْطَلِقْ بِنَاضِحِكَ فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى أَهْلِكَ»

ترجمہ Book - حدیث 2205

کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل باب: قیمت کے بارے میں بات چیت کرنا حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک غزوے میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم اپنا یہ اونٹ مجھے ایک دینار کے عوض فروخت کرتے ہو؟ اللہ تمہاری مغفرت کرے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں گا تو یہ اونٹ آپ کا ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ دو دینار کے عوض فروخت کرتے ہو؟ اللہ تمہاری مغفرت کرے گا۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک ایک دینار کا اضافہ کرتے رہے اور ہر دینار کے اضافے کے ساتھ فرماتے: اللہ تمہاری مغفرت کرے گا۔ حتی کہ بیس دینار تک پہنچ گئے۔ جب میں مدینہ منورہ پہنچ گیا تو میں نے اونٹ کو اس کے سر سے پکڑ کر نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تو آپ نے فرمایا: بلال! اسے مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو۔ (رقم کی ادائیگی کے بعد) آپ نے مجھ سے فرمایا: اپنا اونٹ لے لو اور اسے اپنے گھر لے جاؤ۔
تشریح : ١۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کی چھ یا نو بیٹیاں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بہنیں ان کی زیر کفالت تھیں۔ (صحيح البخاري، المغازي، باب (إذهمت طائتان منكم أن تفشلا۔۔۔)، حديث:٤٠٥٦) اس ليے رسول اللهﷺ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خاصطور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ٢۔ اگر خریدار محسوس کرے کہ بیچنے والا اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنی چیز کی قیمت جائز ھد سے بہت کم طلب کر رہا ہے تو احسان کا تقاضا ہے کہ اسے پوری قیمت دی جائے۔ ٣۔ قیمت پہلے وصول کرکے سامان بعد میں خریدار اور فروخت کار دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ ٤۔ مستحق پر اس انداز سے احسان کرنا کہ بظاہر وہ کاروباری معاملہ معلوم ہو، اورممنونِ احسان شخص شرمندگی محسوس نہ کرے، بہت عالی ظرفی ہے۔ ١۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کی چھ یا نو بیٹیاں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بہنیں ان کی زیر کفالت تھیں۔ (صحيح البخاري، المغازي، باب (إذهمت طائتان منكم أن تفشلا۔۔۔)، حديث:٤٠٥٦) اس ليے رسول اللهﷺ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خاصطور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ٢۔ اگر خریدار محسوس کرے کہ بیچنے والا اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنی چیز کی قیمت جائز ھد سے بہت کم طلب کر رہا ہے تو احسان کا تقاضا ہے کہ اسے پوری قیمت دی جائے۔ ٣۔ قیمت پہلے وصول کرکے سامان بعد میں خریدار اور فروخت کار دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ ٤۔ مستحق پر اس انداز سے احسان کرنا کہ بظاہر وہ کاروباری معاملہ معلوم ہو، اورممنونِ احسان شخص شرمندگی محسوس نہ کرے، بہت عالی ظرفی ہے۔