كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ صحیح حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: علماء کی فضیلت اور حصول علم کی ترغیب
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔‘‘
تشریح :
(1) عام طور پر فقہ سے نماز روزہ جیسے امور اور خریدوفروخت جیسے معاملات میں جائز و ناجائز، واجب و مستحب اور ان کی شروط، ارکان و آداب وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں۔ عقائد و اخلاق وغیرہ کو الگ علوم تصور کیا جاتا ہے لیکن قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہاں فقہ و تفقہ جیسے الفاظ آئے ہیں، ان سے یہ اصطلاحی معنی مراد نہیں بلکہ وہاں مطلقا دین کا علم و فہم مراد ہوتا ہے جس میں عبادات و معاملات کے ساتھ ساتھ اصلاح قلب، تزکیہ نفس، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ وغیرہ سبھی مراد ہوتے ہیں۔ جس کو ان چیزوں کا علم حاصل ہو جائے وہ اللہ کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے، اپنی ذات کے حقوق بھی اور احباب و اقارب کے علاوہ عام مسلمانوں اور اصھاب اقتدار کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے۔ اس طرح اس کی ندگی قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھل کر دینی و دنیوی خیروبرکت کا ذریعہ بن جاتی ہے، اوور وہ دوسروں کےلیے بھی سراپا رحمت بن جاتا ہے،اور یہی وہ خیر عظیم ہے جس سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں۔ (2) دین و دنیا کی یہ برکات وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو مذکورہ بالا امور کے بارے میں شرعی احکام سے واقف ہو، لہذا اس سے علم دین سیکھنے کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔ (3) اس سے دین کے معلمین و مدرسین کا بلند مقام بھی واضح ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد یہ سب کچھ علماء ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب بھی ایک معلم کا تھا جیسے کہ قرآن مجید میں ہے: (وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـبَ وَالحِكمَةَ) (البقرۃ:129 (وہ پیغمبر) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔ یہی حکمت، وہ فہم دین ہے جسے اس حدیث میں فقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(1) عام طور پر فقہ سے نماز روزہ جیسے امور اور خریدوفروخت جیسے معاملات میں جائز و ناجائز، واجب و مستحب اور ان کی شروط، ارکان و آداب وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں۔ عقائد و اخلاق وغیرہ کو الگ علوم تصور کیا جاتا ہے لیکن قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہاں فقہ و تفقہ جیسے الفاظ آئے ہیں، ان سے یہ اصطلاحی معنی مراد نہیں بلکہ وہاں مطلقا دین کا علم و فہم مراد ہوتا ہے جس میں عبادات و معاملات کے ساتھ ساتھ اصلاح قلب، تزکیہ نفس، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ وغیرہ سبھی مراد ہوتے ہیں۔ جس کو ان چیزوں کا علم حاصل ہو جائے وہ اللہ کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے، اپنی ذات کے حقوق بھی اور احباب و اقارب کے علاوہ عام مسلمانوں اور اصھاب اقتدار کے حقوق بھی ادا کر سکتا ہے۔ اس طرح اس کی ندگی قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھل کر دینی و دنیوی خیروبرکت کا ذریعہ بن جاتی ہے، اوور وہ دوسروں کےلیے بھی سراپا رحمت بن جاتا ہے،اور یہی وہ خیر عظیم ہے جس سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں۔ (2) دین و دنیا کی یہ برکات وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو مذکورہ بالا امور کے بارے میں شرعی احکام سے واقف ہو، لہذا اس سے علم دین سیکھنے کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔ (3) اس سے دین کے معلمین و مدرسین کا بلند مقام بھی واضح ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد یہ سب کچھ علماء ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب بھی ایک معلم کا تھا جیسے کہ قرآن مجید میں ہے: (وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـبَ وَالحِكمَةَ) (البقرۃ:129 (وہ پیغمبر) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔ یہی حکمت، وہ فہم دین ہے جسے اس حدیث میں فقہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔