كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ بَيْعِ الْمُزَايَدَةِ ضعیف حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ: لَكَ فِي بَيْتِكَ شَيْءٌ؟ قَالَ: بَلَى، حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ، وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ، وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَاءَ، قَالَ: «ائْتِنِي بِهِمَا» ، قَالَ: فَأَتَاهُ بِهِمَا، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟» فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، قَالَ: «مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟» مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ، فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ، فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ، وَقَالَ: «اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ، وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا، فَأْتِنِي بِهِ» ، فَفَعَلَ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ، وَقَالَ: «اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا» ، فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ، فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، فَقَالَ: «اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا» ، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ وَالْمَسْأَلَةُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ»
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: نیلامی والی بیع کا بیان
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر (مالی تعاون کا) سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرامای: کیا تمہارے گھر میں تمہاری کوئی چیز موجود ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! ایک کمبل ہے۔ ہم آدھا نیچے بچھاتے ہیں اور آدھا اوڑھ لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: دونوں چیزین میرے پاس لے آؤ۔ وہ انہیں لے کر حاضر ہوا تو اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: یہ دونوں چیزیں کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔آپ نے دو تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے اسے دونوں چیزین دے کر دو درہم لے لیے اور اس انصاری صھابی کو دے دیے، اور فرمایا: ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان لے کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاؤ۔ اس نے ایسے ہی کیا۔رسول اللہ ﷺ نے کلہاڑا لے کر اس میں اپنے ہاتھ سے دستہ لگایا اور فرمایا: جاؤ (جنگل سے) ایندھن کی لکڑیاں لایا کرو (اور بیچ کر ضروریات پوری کرو) اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ ایندھن لا کر بیچنے لگا۔ (اس کے بعد) وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم (جمع ہو چکے) تھے۔ آپ نے فرمایا: کچھ رقم کا کھانے کا سامان خرید لو اور کچھ رقم کا کپڑا خرید لو۔ پھر فرمایا: یہ کام (محنت سے روزی کمانا) تیرے لیے اس بات سے بہت بہتر ہے کہ تووو قیامت کے دن آئے تو مانگنے کی وجہ سے تیرا چہرہ داغ دار ہو۔ مانگنا صرف اس کے لیے جائز ہے جسے مفلسی خاک نشین کر دے، یا جو انتہائی مقروض ہو، یا جو خون کی وجہ سے پریشان ہو۔ (جس سے قتل سرزد ہو گیا ہو اور وہ دیت ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو)۔
تشریح :
1۔ جہاں تک ہو سکے محنت کرکے روزی کمانا اور سوال سے بچنا ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی آدمی صبح کے وقت اپنی پیٹ پر ایندھن اٹھا لائے (اسے بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے) صدقہ کرے، اور لوگوں سے (مانگنے سے) مستغنی ہو جائے، یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ کسی (غنی) آدمی سے مانگے، وہ چاہے اسے کچھ دے چاہے نہ دے۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، باب كراهة المسالة للناس، حديث:1042) 2۔ جس شخص کے لیے سوال سے بچنا ممکن ہو، پھر بھی وہ مانگے تو قیامت کے دن اسے سز املی گی۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’ آدمی لوگوں سے مانگتا ہے حتیٰ کہ (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) وہ قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:1040) 3۔ مصیبت زدہ مالی تعاون کے لیے اپیل کر سکتا ہے لیکن گداگری کو پیشہ بنانا حرام ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ سوال کرنا صرف تین میں سے کسی ایک آدمی کے لیے جائز ہے۔ ایک وہ شخص جس نے (کسی کے معاملات درست کرنے کے لیے) قرض لیا، (جو اس کی طاقت سے بڑھ کر تھا) اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے حتی کی اتنی رقم حاصل کرلے، پھر رک جائے، ایک وہ شخص جس پر ایسی آفت آئی کہ سارا مال تباہ ہو گیا۔ اس کے لیے مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ زندگی کا سہارا (ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی روزگار کا ذریعہ) پالے۔ ایک وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہو گیا حتیٰ کہ اس کی قوم کے تین عقل مند (معتبر) افراد یہ کہیں کہ فلاں شخص وقعی فاقہ کشی کا شکا ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث:1044)
1۔ جہاں تک ہو سکے محنت کرکے روزی کمانا اور سوال سے بچنا ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی آدمی صبح کے وقت اپنی پیٹ پر ایندھن اٹھا لائے (اسے بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے) صدقہ کرے، اور لوگوں سے (مانگنے سے) مستغنی ہو جائے، یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ کسی (غنی) آدمی سے مانگے، وہ چاہے اسے کچھ دے چاہے نہ دے۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، باب كراهة المسالة للناس، حديث:1042) 2۔ جس شخص کے لیے سوال سے بچنا ممکن ہو، پھر بھی وہ مانگے تو قیامت کے دن اسے سز املی گی۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’ آدمی لوگوں سے مانگتا ہے حتیٰ کہ (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) وہ قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:1040) 3۔ مصیبت زدہ مالی تعاون کے لیے اپیل کر سکتا ہے لیکن گداگری کو پیشہ بنانا حرام ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ سوال کرنا صرف تین میں سے کسی ایک آدمی کے لیے جائز ہے۔ ایک وہ شخص جس نے (کسی کے معاملات درست کرنے کے لیے) قرض لیا، (جو اس کی طاقت سے بڑھ کر تھا) اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے حتی کی اتنی رقم حاصل کرلے، پھر رک جائے، ایک وہ شخص جس پر ایسی آفت آئی کہ سارا مال تباہ ہو گیا۔ اس کے لیے مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ زندگی کا سہارا (ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی روزگار کا ذریعہ) پالے۔ ایک وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہو گیا حتیٰ کہ اس کی قوم کے تین عقل مند (معتبر) افراد یہ کہیں کہ فلاں شخص وقعی فاقہ کشی کا شکا ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث:1044)