كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ كَسْبِ الْحَجَّامِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهُ، فَذَكَرَ لَهُ الْحَاجَةَ، فَقَالَ: «اعْلِفْهُ نَوَاضِحَكَ»
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: سینگی لگانے والے کی کمائی
حضرت حرام بن محیصہ ؓ اپنے والد (حضرت سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ؓ) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سینگی لگانے والے کی کمائی کے متعلق دریافت کیا تو نبی ﷺ نے انہیں اس سے منع فرمایا۔ انہوں نے اپنے حاجت مند (اور مفلس) ہونے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اس کا اپنے اونٹوں کو چارہ کھلا دو۔
تشریح :
1۔ سینگی لگانا ایک طریق علاج ہے جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ اسے پچنے لگانا بھی کہتے ہیں۔ 2۔ سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہﷺ حضرت ابو طیبہ کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے البتہ نبیﷺ کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جاسکتی ہے۔ اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔ 3۔ حضرت حرام بن محیصہ کا پورا نام حرام بن سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ہے۔ حافظ ابن حجر ان کی بابت بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں اپنے دادا کی طرف منسوب کر دیا جتا ہے، یعنی حرام بن سعد بن محیصہ کے بجائے حرام بن محیصہ کہہ دیا جتا ہے جبکہ ان کے والد محیصہ نہیں بلکہ سعد ہیں۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب، ترجمة حرام ن سعد:1173)
1۔ سینگی لگانا ایک طریق علاج ہے جس میں خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ اسے پچنے لگانا بھی کہتے ہیں۔ 2۔ سینگی لگانے کی اجرت حرام نہیں ورنہ رسول اللہﷺ حضرت ابو طیبہ کو سینگی لگانے کی اجرت نہ دیتے البتہ نبیﷺ کے منع فرمانے کی وجہ سے اسے ضرورت کے بغیر لینا جائز نہیں، تاہم ضرورت کی بنا پر اس کی اجرت دی اور لی جاسکتی ہے۔ اونٹوں کو کھلانے کا حکم دینے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت حرام نہیں بلکہ ضرورت کے بغیر لینا مکروہ ہے۔ 3۔ حضرت حرام بن محیصہ کا پورا نام حرام بن سعد بن محیصہ بن مسعود انصاری ہے۔ حافظ ابن حجر ان کی بابت بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہیں اپنے دادا کی طرف منسوب کر دیا جتا ہے، یعنی حرام بن سعد بن محیصہ کے بجائے حرام بن محیصہ کہہ دیا جتا ہے جبکہ ان کے والد محیصہ نہیں بلکہ سعد ہیں۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب، ترجمة حرام ن سعد:1173)