كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ الْأَجْرِ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ صحیح حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْكَلَاعِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: عَلَّمْتُ رَجُلًا الْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنْ أَخَذْتَهَا أَخَذْتَ قَوْسًا مِنْ نَارٍ» ، فَرَدَدْتُهَا
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: قرآن پڑھانے کی اجرت وصول کرنا
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھایا۔ اس نے مجھے تحفے کے طور پر ایک کمان دی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: اگر تو نے یہ لے لی تو آگ کی کمان لی۔ چنانچہ میں نے وہ واپس کر دی۔
تشریح :
1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقن نے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: 5/316،317، رقم:1493، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدكتور بشار عواد، حديث:2158) اکثر علمائے کرام نے تعلیم قرآن کی تنخواہ لینا جائز قرار دیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس صحابی کا نکاح تعلیم قرآن حق مہر قرار دے کر دیا تھا جس کے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے مال نہیں تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح البخاري، النكاح، باب النظر إلي المرأة قبل التزويج، حديث: 5126) حالانکہ حق مہر بنیادی طور پر مال ہونا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾ (النساء 24:4) ’’تم اپنے مالوں کے ساتھ (نکاح طلب کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن کو مال کا متبادل قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ تعلیم دیتے وقت ان کا ارادہ احسان اور حصول ثواب کا تھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں توجہ دلائی کہ کمان وصول کر کے اپنا ضائع نہ کریں، خاص طور پر جب کہ یہ کمان اہل صفہ سے لی جارہی تھی جو اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں صدقہ دیا جائے نہ کہ ان سے کچھ وصول کیا جائے، اس لیے ان سے وصول کرنا خلاف مروت اور مکروہ تھا۔ دیکھیے: (سب السلام شرح بلوغ المرام، البیوع، باب المساقة والإجارة، حديث:7) 2۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سب کا موں سے زیادہ اجرت لینے کے لائق اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإجارة، باب ما يعطي في الرقية علي أحياء العرب بفاتحة الكتاب، حديث:2276) امام بخاری کے اس طرح باب کا عنوان مقرر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر رہے ہیں کہ جب دم کرکے اجرت لینا جائز ہے تو تعلیم قرآن میں تو محتن زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ان کے نزدیک اس پر تنخواہ لینا بالا ولیٰ جائز ہوگا۔
1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقن نے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: 5/316،317، رقم:1493، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدكتور بشار عواد، حديث:2158) اکثر علمائے کرام نے تعلیم قرآن کی تنخواہ لینا جائز قرار دیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس صحابی کا نکاح تعلیم قرآن حق مہر قرار دے کر دیا تھا جس کے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے مال نہیں تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح البخاري، النكاح، باب النظر إلي المرأة قبل التزويج، حديث: 5126) حالانکہ حق مہر بنیادی طور پر مال ہونا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾ (النساء 24:4) ’’تم اپنے مالوں کے ساتھ (نکاح طلب کرو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن کو مال کا متبادل قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث سے استدلال کا جواب یہ ہے کہ تعلیم دیتے وقت ان کا ارادہ احسان اور حصول ثواب کا تھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں توجہ دلائی کہ کمان وصول کر کے اپنا ضائع نہ کریں، خاص طور پر جب کہ یہ کمان اہل صفہ سے لی جارہی تھی جو اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں صدقہ دیا جائے نہ کہ ان سے کچھ وصول کیا جائے، اس لیے ان سے وصول کرنا خلاف مروت اور مکروہ تھا۔ دیکھیے: (سب السلام شرح بلوغ المرام، البیوع، باب المساقة والإجارة، حديث:7) 2۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سب کا موں سے زیادہ اجرت لینے کے لائق اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صحيح البخاري، الإجارة، باب ما يعطي في الرقية علي أحياء العرب بفاتحة الكتاب، حديث:2276) امام بخاری کے اس طرح باب کا عنوان مقرر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر رہے ہیں کہ جب دم کرکے اجرت لینا جائز ہے تو تعلیم قرآن میں تو محتن زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ان کے نزدیک اس پر تنخواہ لینا بالا ولیٰ جائز ہوگا۔