كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ الصِّنَاعَاتِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُمْ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ
کتاب: تجارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: صنعتوں اور پیشوں کا بیان
ام المومنین حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ تصویرین بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا۔ انہیں کہا جائے گا جو کچھ تم نے (اپنے خیال کے مطابق) پیدا کیا تھا، اسے زندہ بھی کرو۔
تشریح :
1۔ جاندار چیزوں کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ تصویر کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیرہ پر بنائی جائے، یا مجسم شکل میں مٹی، پتھ، چینی یا پلاسٹک وغیرہ سے بنائی جائے ۔ 2۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تصویر کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہ درست نہیں کیونکہ پوجا تو درختوں، ستاروں، سورج، چاند اور آگ کی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان چیزوں کا استعمال اور ان سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں۔ 3۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ سبقہ شریعتوں میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی اجازت تھی، اگر یہ دعویٰ درست بھی ہو تو بھی کسی چیز کے سابقہ شریعت میں جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے بھی جائز ہے جب تک ہمارے پاس یہ واضح دلیل موجود نہ ہو کہ وہ ہماری شریعت میں بھی جائز ہے۔ 4۔ موجودہ دور میں تصویر کے بعض فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے جائز متبادل ذرائع تلاش کریں، خاص طور پر جب کہ تصویروں (فلم، ٹی وی، وی سی آر وغیرہ) کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی، کافرانہ تہذیب کے فروغ اور کثرت جرائم کے جو خوفناک اور گھناؤنے نتائج سامنے آرہے ہیں، ان کے مقابل ان فوائد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ 5۔ تصویر بنانے والوں کو جان ڈالنے کا حکم انہیں شرمندہ کرنے اور ان کے جرم کی شناعت واضح کرنے کے لیے دیا جائے گا، اس طرح یہ حکم بھی اصل میں ایک عذاب ہی ہوگا۔ 6۔ منع کے اس حکم میں ہاتھ سے بنی ہوئی، کیمرے سے بنی ہوئی یا پریس میں چھپی ہوئی سب تصویرں شامل ہیں۔
1۔ جاندار چیزوں کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ تصویر کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیرہ پر بنائی جائے، یا مجسم شکل میں مٹی، پتھ، چینی یا پلاسٹک وغیرہ سے بنائی جائے ۔ 2۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تصویر کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہ درست نہیں کیونکہ پوجا تو درختوں، ستاروں، سورج، چاند اور آگ کی بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان چیزوں کا استعمال اور ان سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں۔ 3۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ سبقہ شریعتوں میں تصویر سازی اور مجسمہ سازی کی اجازت تھی، اگر یہ دعویٰ درست بھی ہو تو بھی کسی چیز کے سابقہ شریعت میں جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے بھی جائز ہے جب تک ہمارے پاس یہ واضح دلیل موجود نہ ہو کہ وہ ہماری شریعت میں بھی جائز ہے۔ 4۔ موجودہ دور میں تصویر کے بعض فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے جائز متبادل ذرائع تلاش کریں، خاص طور پر جب کہ تصویروں (فلم، ٹی وی، وی سی آر وغیرہ) کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی، کافرانہ تہذیب کے فروغ اور کثرت جرائم کے جو خوفناک اور گھناؤنے نتائج سامنے آرہے ہیں، ان کے مقابل ان فوائد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ 5۔ تصویر بنانے والوں کو جان ڈالنے کا حکم انہیں شرمندہ کرنے اور ان کے جرم کی شناعت واضح کرنے کے لیے دیا جائے گا، اس طرح یہ حکم بھی اصل میں ایک عذاب ہی ہوگا۔ 6۔ منع کے اس حکم میں ہاتھ سے بنی ہوئی، کیمرے سے بنی ہوئی یا پریس میں چھپی ہوئی سب تصویرں شامل ہیں۔