Book - حدیث 2107

كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ» قَالَ: فَلَبِثْنَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِإِبِلٍ، فَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثَةِ إِبِلٍ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا، قَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَلَّا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلَنَا، ارْجِعُوا بِنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَقَالَ: «وَاللَّهِ مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ، بَلِ اللَّهُ حَمَلَكُمْ، إِنِّي وَاللَّهِ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ» ، أَوْ قَالَ «أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي»

ترجمہ Book - حدیث 2107

کتاب: کفارے سے متعلق احکام و مسائل باب: جس نے کوئی قسم کھائی پھر اسے دوسری صورت بہتر معلوم ہوئی حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں قبیلہ بنو اشعر کے چند افراد کے ساتھ سواریاں طلب کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسو اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواریاں مہیا نہیں کروں گا۔ اور میرے پاس سواری کے جانور نہیں ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا: ہم لوگ، جب تک اللہ نے چاہا، (مدینہ میں) ٹھہرے، پھر آپ کے پاس کچھ اونٹ آ گئے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سفید کوہانوں والی (موٹی تازی) تین اونٹنیاں دلوا دیں۔ جب ہم روانہ ہوئے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سواریاں طلب کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ ہمیں سواریاں مہیا نہیں کریں گے، پھر ہمیں سواریاں مہیا فر دیں۔ چلو واپس چلیں (اور دریافت کریں کہ نبی ﷺ نے ہمیں بھول کر سواریاں مہیان ہ فر دی ہوں۔) چنانچہ ہم حاضر خدمت ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں سواریاں طلب کرنے آئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ آپ ہمیں سواریاں مہیا نہیں فرمائیں گے، پھر آپ نے ہمیں سواریاں مہیا فر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں سواریاں نہیں دیں بلکہ اللہ نے تمہیں سواریاں دی ہیں۔ قسم ہے اللہ کی! میں تو ان شاءاللہ جو بھی قسم کھاؤں گا، پھر مجھے دوسری صورت (قسم پوری کرنے سے) بہتر معلوم ہو گی تو میں اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا اور بہتر کام کر لوں گا۔ یا فرماای: میں بہتر کام کر لوں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
تشریح : 1۔ قسم کی تین قسمیں ہیں : (ا) لغو : جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں ۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے ۔(ب) غموس : یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے ۔ یہ کبیرہ گناہ ہے ، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں ۔ (ج) معقدہ : جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے ۔ اس قسم کو توٗڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ (دیکھیئے : تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89) ۔ 2۔ قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ۔ ( سورہ مائدہ : 89) 3۔ ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ ( تقریبا چھ سو گرام ) کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں ۔ اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں ۔ بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ) ( المائدۃ 5: 89) ’’ اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ۔‘‘ یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں ۔ اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے ۔ 4۔ نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے ۔ اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ) ( البقرۃ 2:224) ’’ اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا ( اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو ۔‘‘ 5۔ جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی ۔ 1۔ قسم کی تین قسمیں ہیں : (ا) لغو : جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں ۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے ۔(ب) غموس : یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے ۔ یہ کبیرہ گناہ ہے ، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں ۔ (ج) معقدہ : جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے ۔ اس قسم کو توٗڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ (دیکھیئے : تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89) ۔ 2۔ قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ۔ ( سورہ مائدہ : 89) 3۔ ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ ( تقریبا چھ سو گرام ) کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں ۔ اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں ۔ بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ) ( المائدۃ 5: 89) ’’ اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ۔‘‘ یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں ۔ اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے ۔ 4۔ نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے ۔ اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ) ( البقرۃ 2:224) ’’ اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا ( اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو ۔‘‘ 5۔ جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی ۔