Book - حدیث 2106

كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ الِاسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِينِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رِوَايَةً، قَالَ: «مَنْ حَلَفَ وَاسْتَثْنَى فَلَنْ يَحْنَثْ»

ترجمہ Book - حدیث 2106

کتاب: کفارے سے متعلق احکام و مسائل باب: قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا، اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔
تشریح : 1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۔ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ)(الکہف :18؍23،24) ’’ کسی کام کے بارے میں اس طرح ہر گز نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا ( بلکہ ساتھ یہ بھی کہیں ) مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ‘‘ اس لیے ان شاء اللہ کہنے کو استثناء بھی کہتے ہیں ۔ اس سے اللہ پر اعتماد کا اظہار ہے کہ جو کچھ ہوگا اس کی توفیق سے ہوگا۔ 2۔ قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا پکا ارادہ تو یہی ہے کہ فلاں کام کروں گا لیکن اگر اللہ کا فیصلہ کچھ اور ہوا اور مجھے کوئی عذر پیش آگیا تو پھر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ 1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۔ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ)(الکہف :18؍23،24) ’’ کسی کام کے بارے میں اس طرح ہر گز نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا ( بلکہ ساتھ یہ بھی کہیں ) مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ‘‘ اس لیے ان شاء اللہ کہنے کو استثناء بھی کہتے ہیں ۔ اس سے اللہ پر اعتماد کا اظہار ہے کہ جو کچھ ہوگا اس کی توفیق سے ہوگا۔ 2۔ قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا پکا ارادہ تو یہی ہے کہ فلاں کام کروں گا لیکن اگر اللہ کا فیصلہ کچھ اور ہوا اور مجھے کوئی عذر پیش آگیا تو پھر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔