كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ مَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللَّهِ فَلْيَرْضَ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: «لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ حَلَفَ بِاللَّهِ فَلْيَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللَّهِ فَلْيَرْضَ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ بِاللَّهِ، فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ»
کتاب: کفارے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جسے اللہ کی قسم کھا کر کچھ بتایا جائے ، اسے تسلیم کر لینا چاہیے
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک آدمی کو اپنے باپ کی قسم کھاتے سنا تو فرمایا: اپنے باپوں کی قسمیں نہ کھایا کرو۔ اور جو شخص اللہ کی قسم کھائے اسے چاہیے کہ سچ بولے۔ اور جس کے لیے (اس کے مطالبے پر) اللہ کی قسم کھائی جائے، اسے چاہیے کہ (اس قسم پر) راضی ہو جائے۔ اور جو اللہ سے راضی نہیں ہوتا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔
تشریح :
1۔ ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : ( ارواء الغلیل : 8؍2698، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد ، حدیث : 2101) علاوہ ازیں مذکورہ روایت کے ایک ٹکڑے [لا تحلفوا بابائکم] کی تائید صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ دیکھیے :(صحیح البخاری ، الایمان والنذور ، حدیث : 6648)۔
2۔ قسم دلانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر تو نے قسم کھالی تو میں اعتبار کر لوں گا ۔ اب دوسرا شخص قسم کھاتا ہے اور قسم دلانے والا پھر بھی اعتبار نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نظر میں قسم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ اگر یہ بات تھی تو پھر قسم دلانا ہی غلط تھا ورنہ تسلیم کرے ۔
3۔ قسم کھا کر جھوٹ بولنا بہت بڑا گنا ہے ۔
4۔ قسم صرف اللہ کی کھانی اور دینی چاہیے۔
1۔ ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : ( ارواء الغلیل : 8؍2698، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد ، حدیث : 2101) علاوہ ازیں مذکورہ روایت کے ایک ٹکڑے [لا تحلفوا بابائکم] کی تائید صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ دیکھیے :(صحیح البخاری ، الایمان والنذور ، حدیث : 6648)۔
2۔ قسم دلانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر تو نے قسم کھالی تو میں اعتبار کر لوں گا ۔ اب دوسرا شخص قسم کھاتا ہے اور قسم دلانے والا پھر بھی اعتبار نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نظر میں قسم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ اگر یہ بات تھی تو پھر قسم دلانا ہی غلط تھا ورنہ تسلیم کرے ۔
3۔ قسم کھا کر جھوٹ بولنا بہت بڑا گنا ہے ۔
4۔ قسم صرف اللہ کی کھانی اور دینی چاہیے۔