كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ منکر حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِيُّ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا أَعْرِفَنَّ مَا يُحَدَّثُ أَحَدُكُمْ عَنِّي الْحَدِيثَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ اقْرَأْ قُرْآنًا مَا قِيلَ مِنْ قَوْلٍ حَسَنٍ فَأَنَا قُلْتُهُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘میرے علم میں یہ بات نہیں آنی چاہیئے( اس سے اجتناب کرو) کہ تم میں سے کسی کو میری حدیث سنائی جائے اور وہ اپنے پلنگ پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور (میری حدیث سن کر ) کہہ دے: قرآن پڑھو۔( بات یہ ہے کہ) جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میں نے کہی ہے۔’’
تشریح :
(1) یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ اس کے آخری جملے کی تردید عشرہ مبشرہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے مروی اس متواتر حدیث سے ہوتی ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات (اپنے پاس سے بنا کر) میرے ذمہ لگائی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیے (وہ جہنمی ہے۔ ) (صحيح البخاري‘ الاعلم‘ باب اثم من كذب علي النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث:110) اس لیے جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی، اسے آپ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ بات فی نفسہ اچھی ہی ہو، البتہ اس حدیث کے پہلے حصے کی تائید اس باب کی پہلی اور دوسری حدیث (حدیث نمبر 12 اور 13) سے ہوتی ہے۔ (2) ضعیف حدیث وہ ہے جس میں صحیح اور حسن حدیث کی شرائط نہ پوئی جاتی ہوں۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کی تین آراءہیں: (ا) جمہور محدثین، محققین اور محتاط علمائے کرام ضعیف حدیث کو قابل حجت اور قابل عمل نہیں مانتے، خواہ اس کا تعلق احکام سے ہو یا فضائل اعمال سے۔ (ب) جبکہ ایسے علماء بھی ہیں جو فضائل اعمال میں چند شرائط کے ساتھ ضعیف حدیث کو قبول کرتے ہیں۔ مثلا: (1) وہ ضعیف حدیث شدید ضعیف نہ ہو۔ (2) وہ حدیث کسی عام کے تحت داخل ہو۔ (3) اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا یقین نہ رکھا جائے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جسے آپ نے ارشاد نہیں فرمایا۔ لیکن ان شرائط پر عمل نہایت مشکل ہے، لہذا دیانت و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔ والله اعلم
(1) یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ اس کے آخری جملے کی تردید عشرہ مبشرہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے مروی اس متواتر حدیث سے ہوتی ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات (اپنے پاس سے بنا کر) میرے ذمہ لگائی، اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیے (وہ جہنمی ہے۔ ) (صحيح البخاري‘ الاعلم‘ باب اثم من كذب علي النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث:110) اس لیے جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی، اسے آپ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ بات فی نفسہ اچھی ہی ہو، البتہ اس حدیث کے پہلے حصے کی تائید اس باب کی پہلی اور دوسری حدیث (حدیث نمبر 12 اور 13) سے ہوتی ہے۔ (2) ضعیف حدیث وہ ہے جس میں صحیح اور حسن حدیث کی شرائط نہ پوئی جاتی ہوں۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کی تین آراءہیں: (ا) جمہور محدثین، محققین اور محتاط علمائے کرام ضعیف حدیث کو قابل حجت اور قابل عمل نہیں مانتے، خواہ اس کا تعلق احکام سے ہو یا فضائل اعمال سے۔ (ب) جبکہ ایسے علماء بھی ہیں جو فضائل اعمال میں چند شرائط کے ساتھ ضعیف حدیث کو قبول کرتے ہیں۔ مثلا: (1) وہ ضعیف حدیث شدید ضعیف نہ ہو۔ (2) وہ حدیث کسی عام کے تحت داخل ہو۔ (3) اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا یقین نہ رکھا جائے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جسے آپ نے ارشاد نہیں فرمایا۔ لیکن ان شرائط پر عمل نہایت مشکل ہے، لہذا دیانت و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔ والله اعلم