كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ النَّهْيِ أَنْ يُحْلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَهُ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ» قَالَ عُمَرُ: «فَمَا حَلَفْتُ بِهَا ذَاكِرًا، وَلَا آثِرًا»
کتاب: کفارے سے متعلق احکام و مسائل
باب: اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانے کی ممانعت کا بیان
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے باپ کی قسم کھاتے سنا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے۔ حضرت عمر ﷺ نے فرمایا: پھر میں نے (کبھی) باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، نہ کسی کی بات نقل کرتے ہوئے۔
تشریح :
1۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ باپ کی قسم کھالیا کرتے تھے ، اس لیے نبی ﷺ نے منع فرمایا دیا ۔
2۔ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں ، خواہ باپ کی ہو یا دادا کی ، یا استاد کی یا پیر کی یا بزرگ کی یا کسی ولی کی یا نبی کی جیسے بعض لوگ حضرت علی کی یا ’’ پنجتن پاک‘‘ کی قسم کھا لیتے ہیں ۔ یہ سب حرا ہیں ۔
3۔ نقل کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کی بات کرتے ہوئے کہا جائے کہ ’’ فلاں نے کہا : قسم ہے پیرودستگیر کی ! میں سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘ حضرت عمر نے حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ کسی کی بات بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا : ’’ فلاں کہہ رہا تھا : قسم ہے لات وعزی کی !‘‘
4۔ نامناسب الفاظ کو زبان سے نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ کسی کی بات سنانے کی ضرورت پڑ جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لات وعزی کی قسم کھا کر یوں کہا : جیسے ہم کسی کی گالی نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں : فلاں نے ماں کی گالی دی ، گالی کے الفاظ نہیں دہراتے ۔
1۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ باپ کی قسم کھالیا کرتے تھے ، اس لیے نبی ﷺ نے منع فرمایا دیا ۔
2۔ اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں ، خواہ باپ کی ہو یا دادا کی ، یا استاد کی یا پیر کی یا بزرگ کی یا کسی ولی کی یا نبی کی جیسے بعض لوگ حضرت علی کی یا ’’ پنجتن پاک‘‘ کی قسم کھا لیتے ہیں ۔ یہ سب حرا ہیں ۔
3۔ نقل کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کی بات کرتے ہوئے کہا جائے کہ ’’ فلاں نے کہا : قسم ہے پیرودستگیر کی ! میں سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘ حضرت عمر نے حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ کسی کی بات بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا : ’’ فلاں کہہ رہا تھا : قسم ہے لات وعزی کی !‘‘
4۔ نامناسب الفاظ کو زبان سے نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ کسی کی بات سنانے کی ضرورت پڑ جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لات وعزی کی قسم کھا کر یوں کہا : جیسے ہم کسی کی گالی نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں : فلاں نے ماں کی گالی دی ، گالی کے الفاظ نہیں دہراتے ۔