Book - حدیث 2084

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ كَرَاهِيَةِ الزِّينَةِ لِلْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْنَبَ ابْنَةَ أُمِّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ أَنَّهَا سَمِعَتْ أُمَّ سَلَمَةَ، وَأُمَّ حَبِيبَةَ، تَذْكُرَانِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَةً لَهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَاشْتَكَتْ عَيْنُهَا، فَهِيَ تُرِيدُ أَنْ تَكْحَلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا»

ترجمہ Book - حدیث 2084

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے زیب وزینت کرنا منع ہے ام المومنین حضرت ام سلمہ اور ام المومنین ام حبیبہ ؓا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کی ایک بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ (آنکھوں کے علاج کے لیے) اس کی آنکھوں میں سرمہ لگائے (تو کیا یہ جائز ہے؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جاہلیت میں تو) عورت سال پورا گزرنے پر مینگنی پھینکا کرتی تھی۔ (اسلامی شریعت میں تو) یہ عدت صرف چار مہینے دس دن ہے۔
تشریح : 1۔ وفات کی عدت کے دوران میں زیور وغیرہ پہننے اور زینت کی اشیاء کے استعمال سے اجتناب ضروری ہے۔لباس بھی سادہ پہننا چاہیے۔2:عدت دوران میں علاج کے طور پر بھی ایسی چیز کا استعمال جائز نہیں جو زینت کے لیے استعمال ہوتی ہو‘مثلا: آنکھوں میں سرمہ لگانا‘یا ہاتھوں پر مہندی لگانا۔ اس دوران علاج کے لیے دوسری اشیاء استعمال کریں۔3:وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے‘البتہ اگر امید سے ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے ‘خواہ پیدائش چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے پہلے ہو جائے یا مدت کے بعد ہو۔(سنن ابن ماجہ‘حدیث2027۔2030) 4:اسلام کے احکام غیر اسلامی رسم و رواج بہتر بھی ہیں اور آسان بھی‘اس لیے ان میں اگر کوئی مشکل محسوس ہو تو اسے برداشت کرتے ہوئے شرعی احکام ہی پر عمل کرنا چاہئے۔5:مینگنی پھینکنے سے جاہلیت کے دور طرف اشارہ ہے۔اس زمانے میں جب کسی عورت کا خاوند فویت ہو جاتا تھا تو وہ جھونپڑی میں رہائش پذیر ہو جاتی ‘پرانے کپڑے پہن لیتی ‘کوئی خوشبو وغیرہ استعمال نہ کرتی۔ پورا سال طرح گزارنے کے بعد جب وہ باہر آتی تو اونٹ کی ایک مینگنی لے کر پھینک دیتی۔ یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا کہ فوت شدہ خاوند کی محبت میں ایک سال کا سوگ میرے لیے ایسے ہی معمولی ہے ‘جیسے ایک مینگنی اٹھا کر پھینک دینا۔ اسلام نے رسم بد کا خاتمہ کر دیا۔(صحیح البخاری‘ الطلاق‘ باب تحد المتوفی عنہا اربعۃ اشہر وعشرا) 1۔ وفات کی عدت کے دوران میں زیور وغیرہ پہننے اور زینت کی اشیاء کے استعمال سے اجتناب ضروری ہے۔لباس بھی سادہ پہننا چاہیے۔2:عدت دوران میں علاج کے طور پر بھی ایسی چیز کا استعمال جائز نہیں جو زینت کے لیے استعمال ہوتی ہو‘مثلا: آنکھوں میں سرمہ لگانا‘یا ہاتھوں پر مہندی لگانا۔ اس دوران علاج کے لیے دوسری اشیاء استعمال کریں۔3:وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے‘البتہ اگر امید سے ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے ‘خواہ پیدائش چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے پہلے ہو جائے یا مدت کے بعد ہو۔(سنن ابن ماجہ‘حدیث2027۔2030) 4:اسلام کے احکام غیر اسلامی رسم و رواج بہتر بھی ہیں اور آسان بھی‘اس لیے ان میں اگر کوئی مشکل محسوس ہو تو اسے برداشت کرتے ہوئے شرعی احکام ہی پر عمل کرنا چاہئے۔5:مینگنی پھینکنے سے جاہلیت کے دور طرف اشارہ ہے۔اس زمانے میں جب کسی عورت کا خاوند فویت ہو جاتا تھا تو وہ جھونپڑی میں رہائش پذیر ہو جاتی ‘پرانے کپڑے پہن لیتی ‘کوئی خوشبو وغیرہ استعمال نہ کرتی۔ پورا سال طرح گزارنے کے بعد جب وہ باہر آتی تو اونٹ کی ایک مینگنی لے کر پھینک دیتی۔ یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا کہ فوت شدہ خاوند کی محبت میں ایک سال کا سوگ میرے لیے ایسے ہی معمولی ہے ‘جیسے ایک مینگنی اٹھا کر پھینک دینا۔ اسلام نے رسم بد کا خاتمہ کر دیا۔(صحیح البخاری‘ الطلاق‘ باب تحد المتوفی عنہا اربعۃ اشہر وعشرا)