Book - حدیث 2081

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ طَلَاقِ الْعَبْدِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ الْغَافِقِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»

ترجمہ Book - حدیث 2081

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: غلام کی طلاق کا بیان حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے آقا نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا تھا۔ اب وہ اسے مجھ سے جدا کرنا چاہتا ہے۔ راؤی حدیث ابن عباس ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فر ہوئے اور فرمایا: لوگو! کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص اپنے غلام سے اپنی لونڈی کا نکاح کر دیتا ہے، پھر ان دونوں میں جدائی ڈالیان چاہتا ہے؟طلاق دینا تو اسی کا حق ہے جس نے پنڈلی کو پکڑا۔
تشریح : 1 ۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقین نے اسے شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے‘نیز ہمارے شیخ نے بھی اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر حسن بن جاتی ہے جو علمائے محققین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے تفصیل کے لیے دیکھیے(ارواءالغليل:7/108‘109‘110) 2۔ غلام کو نکاح کرنے کے لیے آقا کی اجازت کی ضرورت ہے لیکن جب نکاح ہو جائے تو آقا اس کا نکاح فسخ نہیں کر سکتا۔ 3۔طلاق دیناخاوند کا حق ہے‘چاہےخاوندآزاد ہو یا غلام ۔کسی اور کو نہیں کہ اسےبیوی علیحدگی پر مجبور کرے۔4:’’پنڈلی پکڑنا‘‘ان بے تکلفانہ تعلقات کی طرف اشارہ ہے جو خاوند اور بیوی میں ہوتے ہیں۔ آقا جب اپنی لونڈی کا نکاح کسی سے کر دے تو اسے یہ حق حاصل نہیں رہتا کہ لونڈی کے اعضائےمستورہ کو دیکھے یا چھوئے ۔یہ حق خاوند کا ہوکتا ہے۔اسی طرح طلاق بھی خاوندہی کا حق ہے۔ 1 ۔مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقین نے اسے شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے‘نیز ہمارے شیخ نے بھی اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنا پر حسن بن جاتی ہے جو علمائے محققین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے تفصیل کے لیے دیکھیے(ارواءالغليل:7/108‘109‘110) 2۔ غلام کو نکاح کرنے کے لیے آقا کی اجازت کی ضرورت ہے لیکن جب نکاح ہو جائے تو آقا اس کا نکاح فسخ نہیں کر سکتا۔ 3۔طلاق دیناخاوند کا حق ہے‘چاہےخاوندآزاد ہو یا غلام ۔کسی اور کو نہیں کہ اسےبیوی علیحدگی پر مجبور کرے۔4:’’پنڈلی پکڑنا‘‘ان بے تکلفانہ تعلقات کی طرف اشارہ ہے جو خاوند اور بیوی میں ہوتے ہیں۔ آقا جب اپنی لونڈی کا نکاح کسی سے کر دے تو اسے یہ حق حاصل نہیں رہتا کہ لونڈی کے اعضائےمستورہ کو دیکھے یا چھوئے ۔یہ حق خاوند کا ہوکتا ہے۔اسی طرح طلاق بھی خاوندہی کا حق ہے۔