Book - حدیث 2072

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ الْحَرَامِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزْعَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ، وَحَرَّمَ فَجَعَلَ الْحَلَالَ حَرَامًا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً»

ترجمہ Book - حدیث 2072

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: ( بیوی کو خود پر ) حرام کر لینے کا بیان حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا اور (ان کو اپنے اوپر) حرام کر لیا، حلال چیز کو حرام کیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا۔
تشریح : 1۔ یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے ، تاہم اس میں بیان کردہ دونوں ہی باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ رسول اللہﷺ نے’’ ایلاء‘‘ بھی کیا اور 29 دن تک آپ بیویوں سےعلیحدہ رہے۔اسی طرح ایک اور موقع پر آپﷺ نے شہداپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ یہ الگ الگ واقعے ہیں، راوی نے ان کو ایک جگہ جمع کردیا جو غلط ہے۔2۔ ’’ ایلاء‘‘ کے مسائل کے لیے دیکھئے: ( حدیث :2059۔2061، کتاب الطلاق، باب :24)۔3۔شہد کے واقعہ کی طرف سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں اشارہ ہے ۔ صحیحین میں مذکورہے کہ حضرت عائشہ اورحضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے چاہا کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہریں اور حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے ہاں کم ٹھہریں، اس لیے اپنی باری پر دونوں نےکہا کہ رسول اللہﷺ کے دہن مبارک سے مغافیر کے درخت (کے پھول یا گوند) کی بومحسوس ہوتی ہے۔ نبیﷺنے فرمایا کہ میں نےایسی کوئی چیز تو نہیں کھائی، شہد پیا تھا، ممکن ہے شہد کی مکھیوں نے مغافیر کے پھولوں سے رس چوسا ہو۔ اور قسم کھالی کہ آئندہ وہ شہد نہیں پئیں گے۔ اس پر سورۃ تحریم کی آیات نازل ہوئیں۔(صحیح البخاری ، التفسیر ، سورۃ التحریم، باب :1، حدیث :4912)۔4۔قسم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ فَكَفّـرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـثَةِ أَيّامٍ﴾ (المائدہ5؍89) ’’ اس کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو ، یا انہیں کپڑے پہنانا ہے، یا ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرنا ہے اور جواس کی طاقت نہ رکھتاہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔‘‘ 5۔ سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں حلال کو حرام قراردینے کی ممانعت ہے اور اس کے فوراً بعد دوسری آیت میں ارشاد ہے:﴿ قَد فَرَ‌ضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـنِكُم﴾’’ اللہ تعالی نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔‘‘ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حلال چیز کو اپنے اوپر حراخم کرلینا بھی ایک طرح کی قسم ہے، اس لیے اس صورت میں بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے ، البتہ امام شوکانی ﷫ کے نزدیک صرف عورت کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ضروری ہے، کسی اور چیز کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف﷾ نے بھی تفسیر احسن البیان میں امام شوکانی﷫ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے:( تفسیر احسن البیان، سورۃ مائدہ، آیت:87) 1۔ یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے ، تاہم اس میں بیان کردہ دونوں ہی باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ رسول اللہﷺ نے’’ ایلاء‘‘ بھی کیا اور 29 دن تک آپ بیویوں سےعلیحدہ رہے۔اسی طرح ایک اور موقع پر آپﷺ نے شہداپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ یہ الگ الگ واقعے ہیں، راوی نے ان کو ایک جگہ جمع کردیا جو غلط ہے۔2۔ ’’ ایلاء‘‘ کے مسائل کے لیے دیکھئے: ( حدیث :2059۔2061، کتاب الطلاق، باب :24)۔3۔شہد کے واقعہ کی طرف سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں اشارہ ہے ۔ صحیحین میں مذکورہے کہ حضرت عائشہ اورحضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے چاہا کہ رسول اللہﷺ ان کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہریں اور حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے ہاں کم ٹھہریں، اس لیے اپنی باری پر دونوں نےکہا کہ رسول اللہﷺ کے دہن مبارک سے مغافیر کے درخت (کے پھول یا گوند) کی بومحسوس ہوتی ہے۔ نبیﷺنے فرمایا کہ میں نےایسی کوئی چیز تو نہیں کھائی، شہد پیا تھا، ممکن ہے شہد کی مکھیوں نے مغافیر کے پھولوں سے رس چوسا ہو۔ اور قسم کھالی کہ آئندہ وہ شہد نہیں پئیں گے۔ اس پر سورۃ تحریم کی آیات نازل ہوئیں۔(صحیح البخاری ، التفسیر ، سورۃ التحریم، باب :1، حدیث :4912)۔4۔قسم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:﴿ فَكَفّـرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـثَةِ أَيّامٍ﴾ (المائدہ5؍89) ’’ اس کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو ، یا انہیں کپڑے پہنانا ہے، یا ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرنا ہے اور جواس کی طاقت نہ رکھتاہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔‘‘ 5۔ سورۃ تحریم کی پہلی آیت میں حلال کو حرام قراردینے کی ممانعت ہے اور اس کے فوراً بعد دوسری آیت میں ارشاد ہے:﴿ قَد فَرَ‌ضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـنِكُم﴾’’ اللہ تعالی نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے۔‘‘ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حلال چیز کو اپنے اوپر حراخم کرلینا بھی ایک طرح کی قسم ہے، اس لیے اس صورت میں بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے ، البتہ امام شوکانی ﷫ کے نزدیک صرف عورت کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا ضروری ہے، کسی اور چیز کو حرام کرلینے کی صورت میں کفارہ واجب نہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف﷾ نے بھی تفسیر احسن البیان میں امام شوکانی﷫ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے:( تفسیر احسن البیان، سورۃ مائدہ، آیت:87)