كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ مَا يَقَعُ بِهِ الطَّلَاقُ مِنَ الْكَلَامِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُذْتِ بِعَظِيمٍ، الْحَقِي بِأَهْلِكِ»
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
باب: کن الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے
امام (عبدالرحمٰن بن عمرو) اوزاعی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے امام (محمد بن مسلم شہاب) زہری ؓ سے پوچھا کہ نبی ﷺ کی کس زؤجہ محترمہ نے نبی ﷺ سے اللہ کی پناہ مانگی تھی؟ انہوں نے کہا: مجھے حضرت عروہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓا سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ بنت جون (ؓا) جب نبی ﷺ کے پاس (خلوت میں) پہنچیں تو رسول اللہ ﷺ ان کے قریب ہو گئے، انہوں نے کہا: میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے عظیم ہستی کی پناہ لے لی، اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔
تشریح :
1۔ طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً:’’ تجھے طلاق ہے۔‘‘ ’’ میں نے تجھے طلاق دی۔‘‘ ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔2۔ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ انہیں’’کنایہ‘‘ کےالفاظ کہتے ہیں۔ ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔ اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً: اس حدیث میں’’ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جا‘‘ سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے: [الحقی باہلک] ’’ اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔‘‘ اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔( صحیح البخاری، المغازی ، باب حدیث کعب بن مالک حدیث:4481)3۔ اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث:2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
1۔ طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً:’’ تجھے طلاق ہے۔‘‘ ’’ میں نے تجھے طلاق دی۔‘‘ ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔2۔ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ انہیں’’کنایہ‘‘ کےالفاظ کہتے ہیں۔ ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔ اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً: اس حدیث میں’’ اپنے گھروالوں کے پاس چلی جا‘‘ سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے: [الحقی باہلک] ’’ اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔‘‘ اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔( صحیح البخاری، المغازی ، باب حدیث کعب بن مالک حدیث:4481)3۔ اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث:2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔