Book - حدیث 2043

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي صحیح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»

ترجمہ Book - حدیث 2043

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: زبردستی کی طلاق اور بھول سے طلاق کا بیان حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے میری خاطر میری امت کو غلطی، بھول اور وہ کام معاف کر دیے ہیں جن پر انہیں مجبور کیا گیا ہو۔
تشریح : 1۔ غلطی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام کرنا چاہتا تھا ، بلا ارادہ وہ کام غلط ہوگیا ، اسے گناہ نہیں ہوگا، تاہم کیے ہوئے کا م کو دوبارہ صحیح انداز سے انجام دینا، یا اس کی مناسب طریقے سے تلافی کرنا ضروری ہے۔2۔ بھول کا مطلب ہے کہ کام کرنے والے کو یاد نہ رہے، مثلاً: نماز کا وقت ہوجانے پر وہ کسی کام میں مشغول تھا جس کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ جب فارغ ہوا تو اسے یاد نہ رہا کہ نماز نہیں پڑھی،یا روزہ رکھ کر کھا پی لیا کیونکہ اسے یاد نہیں رہا تھا کہ وہ روزے سے ہے، یا کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا، جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو یاد نہ رہا، اس لیے وقت پروعدہ پورا نہ ہوسکا،تواس تاخیر وغیرہ کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔3۔جب کسی کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر کوئی ناجائز کام کروایا جائے ، یا کسی ناقابل برداشت نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر ایساکام کرنے پر مجبور کردیا جائے جو وہ کرنا نہیں چاہتا تو وہ کام کرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا، مجبور کرنے والے پر اس غلط کام کا گناہ بھی ہوگااور زبردستی کرنےکا گناہ بھی ہوگا۔4۔ اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، وہ اپنی جان بچانے کےلیے طلاق کے الفاظ بول دے،یا لکھ دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی جیسے کہ حدیث 2046 میں صراحت ہے۔ 1۔ غلطی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام کرنا چاہتا تھا ، بلا ارادہ وہ کام غلط ہوگیا ، اسے گناہ نہیں ہوگا، تاہم کیے ہوئے کا م کو دوبارہ صحیح انداز سے انجام دینا، یا اس کی مناسب طریقے سے تلافی کرنا ضروری ہے۔2۔ بھول کا مطلب ہے کہ کام کرنے والے کو یاد نہ رہے، مثلاً: نماز کا وقت ہوجانے پر وہ کسی کام میں مشغول تھا جس کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ جب فارغ ہوا تو اسے یاد نہ رہا کہ نماز نہیں پڑھی،یا روزہ رکھ کر کھا پی لیا کیونکہ اسے یاد نہیں رہا تھا کہ وہ روزے سے ہے، یا کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا، جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو یاد نہ رہا، اس لیے وقت پروعدہ پورا نہ ہوسکا،تواس تاخیر وغیرہ کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔3۔جب کسی کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر کوئی ناجائز کام کروایا جائے ، یا کسی ناقابل برداشت نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر ایساکام کرنے پر مجبور کردیا جائے جو وہ کرنا نہیں چاہتا تو وہ کام کرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا، مجبور کرنے والے پر اس غلط کام کا گناہ بھی ہوگااور زبردستی کرنےکا گناہ بھی ہوگا۔4۔ اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، وہ اپنی جان بچانے کےلیے طلاق کے الفاظ بول دے،یا لکھ دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی جیسے کہ حدیث 2046 میں صراحت ہے۔