كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ مَنْ طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يَتَكَلَّمْ بِهِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ح وحَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، جَمِيعًا عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ، أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ»
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
باب: زبان سے طلاق کے الفاظ بولے بغیر دل میں طلاق دینا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے میری امت کے لوگوں سے وہ سب کچھ معاف کر دیا ہے جو وہ اپنے دلوں سے بات کریں، جب تک اس (کیال) کو عمل میں نہ لائیں یا (زبان سے) کلام نہ کریں۔
تشریح :
1۔ انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔ یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔2۔ جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا،مثلاً: ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔‘‘عرض کیا گیا : یہ تو قاتل ہے(اس لیے مجرم ہے) مقتول(کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ’’ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الفتن، باب اذا التقی السلمان بسیفیہما، حدیث:7083)3۔ بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت ، نفرت، خوف وغیرہ ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے ، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً: اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔ ایمان ، کفر ، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔
1۔ انسان کےدل میں مختلف خیالات آتے رہتے ہیں جن میں اچھے خیالات بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی۔ یہ جب تک خیالات کی حدتک رہیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔2۔ جب خیال عزم کے درجے پر پہنچ جائے تو نیک عزم کا ثواب ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص برے کام کا پروگرام بناتا ہے لیکن کسی وجہ سے وہ پروگرام ناکام ہوجاتا ہے تو اس نے جس حد تک کوشش کی ہے اس کا گناہ ہوگا،مثلاً: ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا تو حملہ آور کو گناہ بہر حال ہوگا اگرچہ وہ قتل نہیں کرسکا۔ ارشاد نبوی ہے: ’’جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنم میں جائیں گے۔‘‘عرض کیا گیا : یہ تو قاتل ہے(اس لیے مجرم ہے) مقتول(کو سزا ملنے) کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ’’ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی شدید خواہش رکھتا تھا۔‘‘ ( صحیح البخاری ، الفتن، باب اذا التقی السلمان بسیفیہما، حدیث:7083)3۔ بعض اعمال کا تعلق صرف دل سے ہے، مثلاً محبت ، نفرت، خوف وغیرہ ، ان میں سے جو چیزدل میں بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے اعمال پراثر انداز ہوتی ہے ، اس پر ثواب و عذاب ملتا ہے، مثلاً: اللہ سے محبت، رسول اللہﷺ سے محبت، قرآن کا احترام، یا کسی نیک کام سے نفرت یا کسی نیک آدمی سے بغض وغیرہ۔ ایمان ، کفر ، اخلاص اور نفاق کا تعلق اسی قسم سے ہے۔