Book - حدیث 2035

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا هَلْ لَهَا سُكْنَى وَنَفَقَةٌ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: «إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً»

ترجمہ Book - حدیث 2035

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: کیا تین طلاق والی عورت کو رہائش اور خرچ ملے گا؟ حضرت فاطمہ بنت قیس ؓا سے روایت ہے کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں رہائش اور خرچ نہ دلوایا۔
تشریح : 1۔طلاق بائن کے بعد عدت میں عورت کو خرچ دینا مرد کے ذمے نہیں۔2۔ بعض علماء نے طلاق بائن کے بعد بھی عدت میں عورت کا خرچ اور رہائش وغیرہ کا انتظام مرد کے ذمے قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل سورۃ طلاق کی پہلی آیت ہے:﴿لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾’’ انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو، نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کھلی برائی کا ارتکاب کریں۔‘‘لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آیت رجعی طلاق والی عورت کے بارے میں ہے کیونکہ اس کے بعد یہ فرمان ہے:﴿لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذلِكَ أَمرً‌ا ﴾ ’’ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے۔‘‘اس آیت میں نئی بات سے مراد یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے سے امید ہے کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کے جذبات پیدا ہو کر رجوع ہونے کا امکان ہوگا۔ بائن طلاق کے بعدیہ امکان نہیں کیونکہ رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (نیل الاوطار، باب ماجاء فی نفقۃ المبتوتۃوسکناہا، وباب النفقۃ والسکنی للمعتدۃ الرجعیۃ) 3۔ اگر عورت حمل سے ہوتو عدت کے دوران میں اس کا خرچ مرد کے ذمےہے، خواہ طلاق بائن ہی کیوں نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿ وَإِن كُنَّ أُولـتِ حَملٍ فَأَنفِقوا عَلَيهِنَّ حَتّى يَضَعنَ حَملَهُنَّ ﴾( الطلاق6:65) ’’ اگر وہ حمل سے ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک انہیں خرچ دیتے رہو۔‘‘ 1۔طلاق بائن کے بعد عدت میں عورت کو خرچ دینا مرد کے ذمے نہیں۔2۔ بعض علماء نے طلاق بائن کے بعد بھی عدت میں عورت کا خرچ اور رہائش وغیرہ کا انتظام مرد کے ذمے قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل سورۃ طلاق کی پہلی آیت ہے:﴿لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾’’ انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو، نہ وہ خود نکلیں، سوائے اس کے کہ وہ کھلی برائی کا ارتکاب کریں۔‘‘لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آیت رجعی طلاق والی عورت کے بارے میں ہے کیونکہ اس کے بعد یہ فرمان ہے:﴿لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذلِكَ أَمرً‌ا ﴾ ’’ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے۔‘‘اس آیت میں نئی بات سے مراد یہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے سے امید ہے کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کے جذبات پیدا ہو کر رجوع ہونے کا امکان ہوگا۔ بائن طلاق کے بعدیہ امکان نہیں کیونکہ رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (نیل الاوطار، باب ماجاء فی نفقۃ المبتوتۃوسکناہا، وباب النفقۃ والسکنی للمعتدۃ الرجعیۃ) 3۔ اگر عورت حمل سے ہوتو عدت کے دوران میں اس کا خرچ مرد کے ذمےہے، خواہ طلاق بائن ہی کیوں نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿ وَإِن كُنَّ أُولـتِ حَملٍ فَأَنفِقوا عَلَيهِنَّ حَتّى يَضَعنَ حَملَهُنَّ ﴾( الطلاق6:65) ’’ اگر وہ حمل سے ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک انہیں خرچ دیتے رہو۔‘‘