كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ أَيْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ - وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - أَنَّ أُخْتَهُ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكٍ، قَالَتْ: خَرَجَ زَوْجِي فِي طَلَبِ أَعْلَاجٍ لَهُ، فَأَدْرَكَهُمْ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، فَقَتَلُوهُ، فَجَاءَ نَعْيُ زَوْجِي وَأَنَا فِي دَارٍ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ، شَاسِعَةٍ عَنْ دَارِ أَهْلِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ جَاءَ نَعْيُ زَوْجِي وَأَنَا فِي دَارٍ شَاسِعَةٍ عَنْ دَارِ أَهْلِي، وَدَارِ إِخْوَتِي، وَلَمْ يَدَعْ مَالًا يُنْفِقُ عَلَيَّ، وَلَا مَالًا وَرِثْتُهُ، وَلَا دَارًا يَمْلِكُهَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْذَنَ لِي فَأَلْحَقَ بِدَارِ أَهْلِي، وَدَارِ إِخْوَتِي فَإِنَّهُ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَأَجْمَعُ لِي فِي بَعْضِ أَمْرِي، قَالَ: «فَافْعَلِي إِنْ شِئْتِ» ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ قَرِيرَةً عَيْنِي لِمَا قَضَى اللَّهُ لِي عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، أَوْ فِي بَعْضِ الْحُجْرَةِ دَعَانِي، فَقَالَ: «كَيْفَ زَعَمْتِ؟» ، قَالَتْ: فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي جَاءَ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ» ، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
باب: بیوہ کہاں عدت گزارے؟
حضرت زینب بنت کعب بن عجرہ ؓا جو حضرت ابوسعید خدری ؓ کی زوجہ محترمہ تھیں، حضرت ابوسعید ؓ کی ہمیشیرہ حضرت فریعہ بنت مالک ؓا سے روایت کرتی ہیں، انہوں نے فرمایا: میرے شوہر اپنے کچھ (بھاگے ہوئے) غلاموں کی تلاش میں نکلے۔ (آخر) قدوم جگہ کے قریب انہیں جا لیا۔ غلاموں نے انہیں شہید کر دیا۔ جب مجھے میرے خاوند کی وفات کی خبر ملی تو میں اپنے خاندان کے محلے سے دور انصار کے ایک مکان میں رہائش پزیر تھی۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے خاوند کی وفات کی خبر اس حال میں ملی ہے کہ میں ایک ایسے مکان میں رہ رہی ہوں جو میرے خاندان کے محلے سے بھی دور ہے اور میرے بھائیوں کے گھروں سے بھی دور ہے۔ اور اس نے کوئی مال بھی نہیں چھوڑا جس سے میرا خرچ چلتا رہے، نہ کوئی مال چھوڑا ہے جو مجھے ترکے میں ملے، نہ ان کی ملکیت میں کوئی گھر تھا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اجازت دے دیں کہ میں اپنے اقارب اور اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاؤں۔ مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے اور اس سے میرے (روز مرہ کے) کام بہتر طور پر چلتے رہیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہ وتو یوں ہی کر لو۔ وہ فرماتی ہیں: میں باہر نکلی تو مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی زبان سے میرے حق میں فیصلہ فرمایا۔ میں ابھی مسجد ہی میں تھی یا گھر کے صحن ہی میں تھی کہ آپ ﷺ نے مجھے (دوبارہ) طلب فر لیا، پھر فرمایا: تم نے کیسے بیان کیا؟ میں نے دوبارہ صورت حال پیش کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تک اللہ کی مقرر کردہ مدت (موت کی عدت) پوری نہیں ہو جاتی، اسی گھر میں رہائش رکھو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی وفات کی خبر پہنچی۔ چنانچہ میں نے چار ماہ دس دن تک وہیں عدت گزاری۔
تشریح :
1۔ عورت کو عدت اسی مکان میں گزارنی چاہیے جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔2۔ خاوند کی وفات پر عدت چار مہینے دس دن ہے۔ اور اگر عورت حاملہ ہو تو عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے اگرچہ خاوند کی وفات کے چند لمحے بعد ہی ولادت ہو جائے۔
1۔ عورت کو عدت اسی مکان میں گزارنی چاہیے جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔2۔ خاوند کی وفات پر عدت چار مہینے دس دن ہے۔ اور اگر عورت حاملہ ہو تو عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے اگرچہ خاوند کی وفات کے چند لمحے بعد ہی ولادت ہو جائے۔