كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ حَلَّتْ لِلْأَزْوَاجِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «وَاللَّهِ، لَمَنْ شَاءَ لَاعَنَّاهُ، لَأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا»
کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل
باب: جس حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے بچے کی پیدائش ہونے پر اسے نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! جو شخص چاہے ہم اس سے مباہلہ کر سکتے ہیں کہ عورتوں کے مسائل کی چھوٹی سورت (سورۃ الطلاق) چار ماہ دس دن کا حکم نازل ہونے کے بعد نازل ہوئی تھی۔
تشریح :
1۔ سورۂ طلاق میں یہ حکم ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔ یہ حکم بعد میں نازل ہوا۔ اور سورۂ بقرہ کی وہ آیت اس سے پہلے نازل ہوئی تھی جس میں یہ حکم ہے کہ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے(البقرۃ234:2) لہذا حاملہ عورت کا خاوند اگر فوت ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے، خواہ حمل کی مدت کم ہو یا زیادہ۔ اور یہی مسئلہ صحیح ہے۔2۔ جو عورت حمل سے نہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو جائے، اس کےلیے یہ حکم باقی ہے کہ وہ چار ماہ دس دن عدت گزارے، خواہ اس کی رخصتی ہوئی ہو یا صرف نکاح ہوا ہو اور رخصتی نہ ہوئی ہو۔
1۔ سورۂ طلاق میں یہ حکم ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔ یہ حکم بعد میں نازل ہوا۔ اور سورۂ بقرہ کی وہ آیت اس سے پہلے نازل ہوئی تھی جس میں یہ حکم ہے کہ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے(البقرۃ234:2) لہذا حاملہ عورت کا خاوند اگر فوت ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے، خواہ حمل کی مدت کم ہو یا زیادہ۔ اور یہی مسئلہ صحیح ہے۔2۔ جو عورت حمل سے نہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو جائے، اس کےلیے یہ حکم باقی ہے کہ وہ چار ماہ دس دن عدت گزارے، خواہ اس کی رخصتی ہوئی ہو یا صرف نکاح ہوا ہو اور رخصتی نہ ہوئی ہو۔