Book - حدیث 2027

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ حَلَّتْ لِلْأَزْوَاجِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بِنْتُ الْحَارِثِ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِبِضْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَشَوَّفَتْ، فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَذُكِرَ أَمْرُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ مَضَى أَجَلُهَا»

ترجمہ Book - حدیث 2027

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: جس حاملہ عورت کا خاوند فوت ہو جائے بچے کی پیدائش ہونے پر اسے نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے حضرت ابو سنابل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت سبیعہ بنت حارث اسلمیہ ؓا کے ہاں، ان کے خاوند کی وفات کے بیس دن سے چند دن بعد ولادت ہو گئی۔ جب وہ نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے نکاح کا ارادہ ظاہر کیا، اس پر لوگوں نے تنقید کی۔ اور نبی ﷺ کے سامنے بھی ان کے اس کام کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ ایسا کرتی ہے تو (جائز ہے کیونکہ) اس کی عدت گزر چکی ہے۔
تشریح : 1۔ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ یہ مسئلہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:﴿واولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن﴾(الطلاق 65:4) ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضح حمل ہے۔‘‘ 2۔ حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل کو صحیح نہ سمجھنے والے خود حضرت ابو سنابل تھے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اگر چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے سے پہلے ولادت ہوجائے تو عدت چار ماہ دس دن تک گزارنی چاہیے۔ عدت وضع حمل تک صرف اس صورت میں ہوگی جب وضع حمل کی مدت چار ماہ دس دن سے زائد ہو جیسے کہ اگلی حدیث میں بیان ہے۔3۔ پہلے حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہی محسوس کیا تھا کہ حضرت ابوسنابل کی رائے صحیح ہے لیکن نبئ اکرم ﷺ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عدت ختم ہوچکی ہے۔(دیکھئے ، حدیث:2028) 1۔ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ یہ مسئلہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:﴿واولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن﴾(الطلاق 65:4) ’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضح حمل ہے۔‘‘ 2۔ حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل کو صحیح نہ سمجھنے والے خود حضرت ابو سنابل تھے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اگر چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے سے پہلے ولادت ہوجائے تو عدت چار ماہ دس دن تک گزارنی چاہیے۔ عدت وضع حمل تک صرف اس صورت میں ہوگی جب وضع حمل کی مدت چار ماہ دس دن سے زائد ہو جیسے کہ اگلی حدیث میں بیان ہے۔3۔ پہلے حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہی محسوس کیا تھا کہ حضرت ابوسنابل کی رائے صحیح ہے لیکن نبئ اکرم ﷺ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عدت ختم ہوچکی ہے۔(دیکھئے ، حدیث:2028)