Book - حدیث 2019

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ طَلَاقِ السُّنَّةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ»

ترجمہ Book - حدیث 2019

کتاب: طلاق سے متعلق احکام و مسائل باب: طلاق دینے کا صحیح طریقہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے اپنی عورت کو طلاق دی جب کہ وہ ایام حیض میں تھی۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کر لے (اور اسے طلاق نہ دے) حتی کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر وہ پاک ہو، پھر اگر چاہے تو اس سے ہم بستر ہونے سے پہلے طلاق دے اور چاہے تو اسے (نکاح میں) روک لے۔ یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
تشریح : 1۔اللہ تعالی نے نکاح کا تعلق دائمی بنایا ہے ، یعنی نکاح اس لیے کیا جاتا ہے کہ پوری زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔ اس تعلق کا پائیدار بنانے کے لیے اللہ تعالی نے بہت سے احکام و آداب نازل کیے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(ا) نکاح کرتے وقت نیک دین دار بیوی تلاش کرنے کا حکم دیا گیا۔( دیکھئے حدیث:1858) (ب) نکاح کا تعلق انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بنادیا گیا ہے، یعنی ایک مرد کا ایک عورت سے تعلق نہیں بلکہ ایک خاندان کا دوسرے خاندان سے تعلق قائم کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے عورت کے سر پرستوں کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور دعوت ولیمہ جیسے احکام جاری کیے ہیں۔(ج) عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مرد کو عورت کی غلطیاں اور کوتاہیاں برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(دیکھئے حدیث:1851، 1853، 1855وغیرہ) (د) عورت کی اصلاح کے لیے فوراً سختی کرنے کی بجائے اصلاح کا تدریجی طریق کار تجویز کیا گیا ہے، یعنی زبانی وعظ و نصیحت، اظہار ناراضی اور بستر میں علیحدگی اور آخر مین معمولی جسمانی سزا۔(النساء4:34)(و) اگر معاملات میں بگاڑ اس حدتک پہنچ جائے کہ دوسری کی مداخلت ضروری ہوجائے تو ثالثی، یعنی پنچایت کے طریق پر مرد اور عورت دونوں کی شکایتیں سن کرجس کی غلطی ہو، اسے سمجھایاجائے اور صلح کرادی جائے۔(النساء4:35) طلاق دینا ضروری ہوجائے تو ایک ہی بار تعلق ختم کردینے کے بجائے ایک رجعی طلاق دینے کاحکم دیا گیا ہے۔ جس کے بعد دوبارہ تعلق بحال کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔(ز) ایام حیض میں اور جس طہر میں مقاربت کی گئی ہو ، اس طہر میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر وقتی غصہ ہو تو ختم ہوجائے اور اگر جدائی کا فیصلہ ہو تو غور و فکر کرنے کی مہلت مل جائے اور اس طرح تعلقات بحال رکھنے کے امکانات بڑھ جائیں۔(ح) دوسری طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔(ط) تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رکھا گیا تاکہ مرداچھی طرح سوچ سمجھ کر یہ طلاق دے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے بعد تعلقات بحال کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔2۔ اگر ایام حیض میں یا اس طہر میں جس میں مقاربت کی گئی ہو ، طلاق دے جائے تو یہ طلاق کا غلط طریقہ ہے جسے علماء کی اصطلاح میں ’’ بدعی طلاق ‘‘ یا’’ طلاق بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی طلاق کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ واقع ہوجائے گی یا نہیں، بہت سے علماء اس کے واقع ہوجانے کے قائل ہیں لیکن اس طرح طلاق دینے والے کو گناہ گار قراردیتے ہیں۔ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ سنت کے مطابق نہیں دی گئی۔ امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔ (حاشیہ سنن ابن ماجہ، ازنواب وحیدالزمان خان) 1۔اللہ تعالی نے نکاح کا تعلق دائمی بنایا ہے ، یعنی نکاح اس لیے کیا جاتا ہے کہ پوری زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔ اس تعلق کا پائیدار بنانے کے لیے اللہ تعالی نے بہت سے احکام و آداب نازل کیے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(ا) نکاح کرتے وقت نیک دین دار بیوی تلاش کرنے کا حکم دیا گیا۔( دیکھئے حدیث:1858) (ب) نکاح کا تعلق انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بنادیا گیا ہے، یعنی ایک مرد کا ایک عورت سے تعلق نہیں بلکہ ایک خاندان کا دوسرے خاندان سے تعلق قائم کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے عورت کے سر پرستوں کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور دعوت ولیمہ جیسے احکام جاری کیے ہیں۔(ج) عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مرد کو عورت کی غلطیاں اور کوتاہیاں برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(دیکھئے حدیث:1851، 1853، 1855وغیرہ) (د) عورت کی اصلاح کے لیے فوراً سختی کرنے کی بجائے اصلاح کا تدریجی طریق کار تجویز کیا گیا ہے، یعنی زبانی وعظ و نصیحت، اظہار ناراضی اور بستر میں علیحدگی اور آخر مین معمولی جسمانی سزا۔(النساء4:34)(و) اگر معاملات میں بگاڑ اس حدتک پہنچ جائے کہ دوسری کی مداخلت ضروری ہوجائے تو ثالثی، یعنی پنچایت کے طریق پر مرد اور عورت دونوں کی شکایتیں سن کرجس کی غلطی ہو، اسے سمجھایاجائے اور صلح کرادی جائے۔(النساء4:35) طلاق دینا ضروری ہوجائے تو ایک ہی بار تعلق ختم کردینے کے بجائے ایک رجعی طلاق دینے کاحکم دیا گیا ہے۔ جس کے بعد دوبارہ تعلق بحال کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔(ز) ایام حیض میں اور جس طہر میں مقاربت کی گئی ہو ، اس طہر میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر وقتی غصہ ہو تو ختم ہوجائے اور اگر جدائی کا فیصلہ ہو تو غور و فکر کرنے کی مہلت مل جائے اور اس طرح تعلقات بحال رکھنے کے امکانات بڑھ جائیں۔(ح) دوسری طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔(ط) تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رکھا گیا تاکہ مرداچھی طرح سوچ سمجھ کر یہ طلاق دے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے بعد تعلقات بحال کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔2۔ اگر ایام حیض میں یا اس طہر میں جس میں مقاربت کی گئی ہو ، طلاق دے جائے تو یہ طلاق کا غلط طریقہ ہے جسے علماء کی اصطلاح میں ’’ بدعی طلاق ‘‘ یا’’ طلاق بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی طلاق کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ واقع ہوجائے گی یا نہیں، بہت سے علماء اس کے واقع ہوجانے کے قائل ہیں لیکن اس طرح طلاق دینے والے کو گناہ گار قراردیتے ہیں۔ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ سنت کے مطابق نہیں دی گئی۔ امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔ (حاشیہ سنن ابن ماجہ، ازنواب وحیدالزمان خان)