كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيَّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْسِمِ، فَيَقُولُ: «أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي»
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ حج کے ایام میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتےت ھے اور فرماتے تھے:‘‘ کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ قریش تو مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روکتے ہیں۔’’
تشریح :
(1) لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کا مطلب ہے کہ حج کے ایام میں عرب کے ہر علاقے سے لوگ مکے آتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید رکھتے تھے کہ شاید ان میں سے کوئی شخص یا قبیلہ ایسا ہو جو تبلیغ کے کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے اور مخالفین کو مخالفت سے منع کرے تاکہ لوگ حق کو سمجھ کر قبول کر سکیں۔ (2) دنیوی معاملات میں، اسباب کی حد تک، کسی سے تعاون اور مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (تعاونوا على البر والتقوىٰ) (المائدہ:2) نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (3) اس سے اللہ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے اور یہ کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جبرئیل کا یا کسی اور کا نہیں۔ اس سے معتزلہ کی تردید ہو جاتی ہے۔
(1) لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کا مطلب ہے کہ حج کے ایام میں عرب کے ہر علاقے سے لوگ مکے آتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید رکھتے تھے کہ شاید ان میں سے کوئی شخص یا قبیلہ ایسا ہو جو تبلیغ کے کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے اور مخالفین کو مخالفت سے منع کرے تاکہ لوگ حق کو سمجھ کر قبول کر سکیں۔ (2) دنیوی معاملات میں، اسباب کی حد تک، کسی سے تعاون اور مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (تعاونوا على البر والتقوىٰ) (المائدہ:2) نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (3) اس سے اللہ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے اور یہ کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جبرئیل کا یا کسی اور کا نہیں۔ اس سے معتزلہ کی تردید ہو جاتی ہے۔