Book - حدیث 2009

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الزَّوْجَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا قَبْلَ الْآخَرِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَدَّ ابْنَتَهُ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بَعْدَ سَنَتَيْنِ بِنِكَاحِهَا الْأَوَّلِ»

ترجمہ Book - حدیث 2009

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: اگر خاوند اور بیوی میں سے ایک دوسرے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو؟ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی (حضرت زینب ؓا) کو دو سال کے بعد، پہلے نکاح کی بنا پر ہی، حضرت ابوالعاص بن ربیع ؓ کے پاس واپس بھیج دیا۔
تشریح : 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام کرلے تو اس کا اپنے خاوند سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز نہیں رہتا۔ ایک دفعہ ماہواری آنے کے بعد عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔( صحیح البخاری، الطلاق، باب نکاح من اسلم من المشرکات وعدتہن، حدیث: 5286) 2۔ اگر عورت دوسری جگہ نکاح نہ کرے ، بلکہ خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے تو جائز ہے۔ اگر خاوند طویل عرصے کے بعد بھی اسلام قبول کرے، تب بھی سابقہ نکا ح کے ساتھ وہ ازدواجی زندگی گزارسکتے ہیں،البتہ امام بخاری﷫ نے بعض صحابہ و تابعین کے فتوے ذکر کیے ہیں کہ اگر عورت پہلے مسلمان ہوئے جائے، پھر خاوند مسلمان ہو، خوہ عدت نہ گزری ہو، تب بھی نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔(صحیح البخاری، الطلاق،باب اذااسلمت المشرکۃ او النصرانیۃ تحت الذمی او الحربی ، حدیث:5288) جبکہ امام ابن قیم ﷫ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد نبئ اکرم ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔ اس قسم کسی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔ یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کرلیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔ محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا،کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبئ اکرم ﷺ نےایسے کیا ہو، حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ دیکھئے:( زادالمعاد، جلد چہارم، حکمہ ﷺ فی الزوجین یسلم احدہما قبل الآخر) علاوہ ازیں حضرت زینت اور ان کے خاوند کے بارے میں ذیل کی حدیث میں نکاح جدید سے لوٹانے کا ذکر آیا ہے تو اس کی بابت بعض علماء پہلی حدیث کو اور بعض نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیان تطبیق دی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (فتح الباری، الطلاق، باب اذااسلمت المشرکۃ.....،وارواہ الغلیل:6؍339، 342، رقم :1921، 1922، وصحیح سنن ابی داود(مفصل):7؍10، 11 رقم :1938) 1۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام کرلے تو اس کا اپنے خاوند سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز نہیں رہتا۔ ایک دفعہ ماہواری آنے کے بعد عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔( صحیح البخاری، الطلاق، باب نکاح من اسلم من المشرکات وعدتہن، حدیث: 5286) 2۔ اگر عورت دوسری جگہ نکاح نہ کرے ، بلکہ خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے تو جائز ہے۔ اگر خاوند طویل عرصے کے بعد بھی اسلام قبول کرے، تب بھی سابقہ نکا ح کے ساتھ وہ ازدواجی زندگی گزارسکتے ہیں،البتہ امام بخاری﷫ نے بعض صحابہ و تابعین کے فتوے ذکر کیے ہیں کہ اگر عورت پہلے مسلمان ہوئے جائے، پھر خاوند مسلمان ہو، خوہ عدت نہ گزری ہو، تب بھی نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔(صحیح البخاری، الطلاق،باب اذااسلمت المشرکۃ او النصرانیۃ تحت الذمی او الحربی ، حدیث:5288) جبکہ امام ابن قیم ﷫ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد نبئ اکرم ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔ اس قسم کسی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔ یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کرلیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔ محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا،کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبئ اکرم ﷺ نےایسے کیا ہو، حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ دیکھئے:( زادالمعاد، جلد چہارم، حکمہ ﷺ فی الزوجین یسلم احدہما قبل الآخر) علاوہ ازیں حضرت زینت اور ان کے خاوند کے بارے میں ذیل کی حدیث میں نکاح جدید سے لوٹانے کا ذکر آیا ہے تو اس کی بابت بعض علماء پہلی حدیث کو اور بعض نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیان تطبیق دی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (فتح الباری، الطلاق، باب اذااسلمت المشرکۃ.....،وارواہ الغلیل:6؍339، 342، رقم :1921، 1922، وصحیح سنن ابی داود(مفصل):7؍10، 11 رقم :1938)