كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْنَاهُ وَأَهْدَاهُ وَأَتْقَاهُ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: حدیث رسول ﷺ کی تعظیم اور اس کی مخالفت کرنے والے پر سختی کرنے کا بیان
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: جب میں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی حدیث سناؤں تو تم اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں وہ گمان رکھو، جو زیادہ بہتر اور ہدایت و تقویٰ سے قریب سے تر ہو۔
تشریح :
(1) مذکورہ دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایسی صحیح حدیث سامنے آئے جس سے بظاہر کوئی نامناسب مفہوم سمجھ میں آتا ہو، تو اس کی تشریح ایسے انداز سے کی جانی چاہیے، جس سے وہ ظاہری قباحت باقی نہ رہے، کیونکہ بعض اوقات ایک حدیث کو ایک سے زیادہ انداز سے سمجھا جانا ممکن ہوتا ہے۔اس صورت میں اس کا وہ مطلب صحیح ہو گا، جس کی تائید قرآن مجید اور دوسری صحیح اھادیث سے ہوتی ہو۔ (2) جس طرح قرآن مجید کی بعض آیات میں ایسے مسائل بیان کیے گئے ہیں جو عقل سے ماورا ہیں (خلاف عقل نہیں) اسی طرح طعض اوقات کسی حدیث میں ایسا مسئلہ بیان ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں صحیح طرز عمل یہی ہے کہ حدیث پر ایمان رکھا جائے اور کہا جائے کہ اس کا مطل کماحقہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی صفات یا قبر اور برزخ کے حالات بیان کرنے والی احادیث۔ یہی طرزعمل سب سے بہتر اور ہدایت و تقویٰ سے قریب تر ہے۔
(1) مذکورہ دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایسی صحیح حدیث سامنے آئے جس سے بظاہر کوئی نامناسب مفہوم سمجھ میں آتا ہو، تو اس کی تشریح ایسے انداز سے کی جانی چاہیے، جس سے وہ ظاہری قباحت باقی نہ رہے، کیونکہ بعض اوقات ایک حدیث کو ایک سے زیادہ انداز سے سمجھا جانا ممکن ہوتا ہے۔اس صورت میں اس کا وہ مطلب صحیح ہو گا، جس کی تائید قرآن مجید اور دوسری صحیح اھادیث سے ہوتی ہو۔ (2) جس طرح قرآن مجید کی بعض آیات میں ایسے مسائل بیان کیے گئے ہیں جو عقل سے ماورا ہیں (خلاف عقل نہیں) اسی طرح طعض اوقات کسی حدیث میں ایسا مسئلہ بیان ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں صحیح طرز عمل یہی ہے کہ حدیث پر ایمان رکھا جائے اور کہا جائے کہ اس کا مطل کماحقہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی صفات یا قبر اور برزخ کے حالات بیان کرنے والی احادیث۔ یہی طرزعمل سب سے بہتر اور ہدایت و تقویٰ سے قریب تر ہے۔