Book - حدیث 1998

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْغَيْرَةِ صحیح حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: «إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، إِلَّا أَنْ يُرِيدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي، يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا»

ترجمہ Book - حدیث 1998

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: غیرت کا بیان حضرت مسور بن مخرمہ بن نوفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمان سنا جب کہ آپ منبر پر تشریف فر تھے: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابو طالب ؓ سے کر دیں۔ میں انہیں اجازت نہیں دیتا، پھر (کہتا ہوں کہ) میں انہیں اجازت نہیں دیتا، پھر (کہتا ہوں کہ) میں انہیں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی (ؓ) بن ابی طالب یہ پسند کریں کہ میری بیٹی (فاطمہ ؓا) کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے شادی کر لیں (تو ان کی مرضی ہے۔) فاطمہ (ؓا) تو میرا ٹکڑا (میرے جسم و جان کا ایک حصہ) ہے۔ جس بات سے اسے پریشانی ہوتی ہے اس سے مجھے بھی پریشانی ہوتی ہے۔ جس بات سے اسے دکھ پہنچتا ہے، اس سے مجھے بھی دکھ پہنچتا ہے۔
تشریح : 1۔ نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔2۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔ اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔ گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔3۔ منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔ اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔ اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔4۔ اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور سفقت کا ثبوت ہے۔ اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔ 1۔ نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔2۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔ اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔ گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔3۔ منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔ اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔ اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔4۔ اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور سفقت کا ثبوت ہے۔ اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔