Book - حدیث 1991

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَتَى يُسْتَحَبُّ الْبِنَاءُ بِالنِّسَاءِ مرسل حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ فِي شَوَّالٍ، وَجَمَعَهَا إِلَيْهِ فِي شَوَّالٍ»

ترجمہ Book - حدیث 1991

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: رخصتی کب مستحب ہے حضرت عبدالملک بن حارث بن ہشام اپنے والد (ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓا سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں انہیں (رخصتی کرا کے) گھر لائے۔
تشریح : اس حدیث کی سند کا آخری حصہ یوں ذکر ہوا ہے : ( عن عبدالملک بن الحارث بن ہشام عن ابیہ ان النبی ﷺ---) انہوں نے عبدالملک بن حارث بن قشام سے انہوں نے اپنےوالد سے رایت کیا کہ نبی ﷺ نے ۔۔۔‘‘ اس پر البانی رحمہ اللہ نے ضعیف سنن ابن ماجہ میں نوٹ دیا ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں : (وابو الملک ہو ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام المخزومی)’’عبدالملک کے والد ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی ہیں ۔‘‘زہیر شادیش ( کتاب کے ناشر) نے ہاشیہ لکھا ہے (ولکن اشکل علیب ماکتبہ استاذنا ناصر الدین من ان عبدالرحمن بن الحارث لہ کنیتان : ابو الملک وابو بکر ) ’’علامہ ناصرالدین البانی کی تحریر کردہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ عبدالرحمن بن حارث کی دو کنیتیں ہیں : ابوعبدالملک اور ابو بکر’’ پھر شادیش صاحب نے تفصیل سے بحث کر کرے یہ نت نتیجہ نکالا ہے : ‘‘ شاید یہاں سبقت قلم ہوگئی ہے ۔ واللہ اعلم میرے خیال میں یہاں زہیر شادیش کو علامہ ناصر الدین البانی کا کلام سمجھنے میں غلطی لگی ہے ۔ البانی رحمہ الہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمن کی دوکنیتیں ہیں جن میں اسے ایک ابو عبد الملک ہے بلکہ یہ واضح فریا ہے کہ سند میں ’’عبدالملک بن الحارث بن عشام عن ابیہ ‘‘ان سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عبد الملک کے والدحضرت حارث بن ہشام ہیں جن سے وہ روایت کر رہے ہیں بلکہ عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ہے ۔ اور وہ اپنے والد ’’ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ‘‘ سے اور یہ ابو بکر بن عبدالرحمن صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر موجود نہیں ہو سکتے اس لیے یہ حدیث مرسل ہے ۔ واللہ اعلم اس حدیث کی سند کا آخری حصہ یوں ذکر ہوا ہے : ( عن عبدالملک بن الحارث بن ہشام عن ابیہ ان النبی ﷺ---) انہوں نے عبدالملک بن حارث بن قشام سے انہوں نے اپنےوالد سے رایت کیا کہ نبی ﷺ نے ۔۔۔‘‘ اس پر البانی رحمہ اللہ نے ضعیف سنن ابن ماجہ میں نوٹ دیا ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں : (وابو الملک ہو ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام المخزومی)’’عبدالملک کے والد ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی ہیں ۔‘‘زہیر شادیش ( کتاب کے ناشر) نے ہاشیہ لکھا ہے (ولکن اشکل علیب ماکتبہ استاذنا ناصر الدین من ان عبدالرحمن بن الحارث لہ کنیتان : ابو الملک وابو بکر ) ’’علامہ ناصرالدین البانی کی تحریر کردہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ عبدالرحمن بن حارث کی دو کنیتیں ہیں : ابوعبدالملک اور ابو بکر’’ پھر شادیش صاحب نے تفصیل سے بحث کر کرے یہ نت نتیجہ نکالا ہے : ‘‘ شاید یہاں سبقت قلم ہوگئی ہے ۔ واللہ اعلم میرے خیال میں یہاں زہیر شادیش کو علامہ ناصر الدین البانی کا کلام سمجھنے میں غلطی لگی ہے ۔ البانی رحمہ الہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عبدالرحمن کی دوکنیتیں ہیں جن میں اسے ایک ابو عبد الملک ہے بلکہ یہ واضح فریا ہے کہ سند میں ’’عبدالملک بن الحارث بن عشام عن ابیہ ‘‘ان سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عبد الملک کے والدحضرت حارث بن ہشام ہیں جن سے وہ روایت کر رہے ہیں بلکہ عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ہے ۔ اور وہ اپنے والد ’’ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام ‘‘ سے اور یہ ابو بکر بن عبدالرحمن صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر موجود نہیں ہو سکتے اس لیے یہ حدیث مرسل ہے ۔ واللہ اعلم