Book - حدیث 199

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي النَّوَّاسُ بْنُ سَمْعَانَ الْكِلَابِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ» وَكانَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يَقُولُ: يَا مُثبِّتَ الْقُلُوبِ، ثبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ. قَالَ: وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ، يَرْفَعُ أقْوَامًا وَيَخْفِضُ آخَرِينَ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

ترجمہ Book - حدیث 199

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا سیدنا نواس بن سمعان کلابی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فر رہے تھے:‘‘ ہر دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ چاہے اسے سیدھا( ہدایت پر قائم) رکھے، چاہے تو ٹیڑھا( اور گمراہ ) کر دے۔ ’’ اور اللہ کے رسول ﷺ فرمایا کرتے تھے:(یَا مُثَبِّتَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی دِیْنِک)‘‘ اے دلوں کو ثابت رکھنے والے! ہمارے دلون کو اپنے رین پر قائم رکھ۔’’ اور آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ میزان رحمان کے ہاتھ میں ہے، وہ قیامت تک کچھ لوگوں کو بلند کرتا رہے گا اور کچھ لوگوں کو پست کرتا رہے گا۔’’
تشریح : (1) مصنف اس حدیث کو اللہ تعالیٰ کی صفت اصابع (انگلیوں) کے اثبات کے لیے لائے ہیں، اس قسم کی تمام حدیثوں میں سلف کا مسلک یہی ہے کہ ان پر بلا تشبیہ ایمان لانا چاہیے۔ (2) ہدایت، اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اس سے ہدایت اور ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت قدمی کے لیے دعا کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کے داعی کو قدم قدم پر جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان میں اسے اللہ کی نصرت و توفیق کی ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنے عجز اور احتیاج کا اظہار ہے جو عبادت کی بنیادی اور مرکزی چیز ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی عبادت کی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امت بھی اس سے سبق حاصل کرے اور نبی علیہ السلام کی اقتدا کرتے ہوئے ہر امتی اللہ سے استقامت کی دعا کرتا رہے۔ (4) عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دنیا میں سربلندی، قوت ، شان اور ہدایت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے پستی، ذلت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور یہ بات اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کون سا فرد یا گروہ کس درجہ کی عزت یا ذلت کا مستحق ہے، یہ پیمانہ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔ (5) بلندی اور پستی، عزت اور ذلت وغیرہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے انسان کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، بعض اوقات یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور اس کے مطابق انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات کا مستحق ہوتا ہے۔ (1) مصنف اس حدیث کو اللہ تعالیٰ کی صفت اصابع (انگلیوں) کے اثبات کے لیے لائے ہیں، اس قسم کی تمام حدیثوں میں سلف کا مسلک یہی ہے کہ ان پر بلا تشبیہ ایمان لانا چاہیے۔ (2) ہدایت، اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اس سے ہدایت اور ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت قدمی کے لیے دعا کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کے داعی کو قدم قدم پر جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان میں اسے اللہ کی نصرت و توفیق کی ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنے عجز اور احتیاج کا اظہار ہے جو عبادت کی بنیادی اور مرکزی چیز ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی عبادت کی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امت بھی اس سے سبق حاصل کرے اور نبی علیہ السلام کی اقتدا کرتے ہوئے ہر امتی اللہ سے استقامت کی دعا کرتا رہے۔ (4) عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دنیا میں سربلندی، قوت ، شان اور ہدایت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے پستی، ذلت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور یہ بات اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کون سا فرد یا گروہ کس درجہ کی عزت یا ذلت کا مستحق ہے، یہ پیمانہ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔ (5) بلندی اور پستی، عزت اور ذلت وغیرہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے انسان کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، بعض اوقات یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور اس کے مطابق انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات کا مستحق ہوتا ہے۔