Book - حدیث 1989

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ لِخَلْقِ اللَّهِ» ، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ: كَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَتْ: إِنِّي لَأَقْرَأُ مَا بَيْنَ لَوْحَيْهِ فَمَا وَجَدْتُهُ، قَالَ: إِنْ كُنْتِ قَرَأْتِهِ فَقَدْ وَجَدْتِهِ، أَمَا قَرَأْتِ: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا} [الحشر: 7] ، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَظُنُّ أَهْلَكَ يَفْعَلُونَ، قَالَ: اذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولِينَ مَا جَامَعَتْنَا

ترجمہ Book - حدیث 1989

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: مصنوعی بال لگوانے والی اوربدن گودنے والی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے گودنے والیوں پر، گدوانے والیوں پر، بال نوچنے والیوں پر، حسن کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والیوں پر اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ قبیلہ بنو اسد کی ایک خاتون، جن کا نام ام یعقوب تھا، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: مجھے معلوم ہوا ہےکہ آپ نے یہ یہ بات فرمائی ہے۔ انہوں نے کہا: میں اس پر کیوں نہ لعنت کروں جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، اور یہ بات اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔ اس نے کہا: میں نے تو شروع سے آخر تک سارا قرآن پڑھا ہوا ہے۔ مجھے تو (اس میں) یہ مسئلہ نہیں ملا۔ انہوں نے فرمایا: اگر تو نے (قرآن) پڑھا ہوتا تو تجھے (یہ مسئلہ) مل جاتا۔ کیا تو نے یہ نہیں پڑھا: (وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟) رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ (یہ تو پڑھا ہے۔) فرمایا: تو رسول اللہ ﷺ نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ کے گھر والے یہ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: جاؤ، جا کر دیکھ لو۔ اس نے جا کر دیکھا تو اسے کوئی ایسی بات نظر نہ آئی جو وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے (واپس آ کر) کہا: مجھے تو کوئی بات نظر نہیں آئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اگر وہ بات اسی طرح ہوتی جس طرح تو کہتی تھی تو وہ (بیوی) ہمارے ساتھ نہ رہتی۔
تشریح : 1۔ بال نوچنے سے مراد چہرے وغیرہ کے بال ہیں جو عورتوں کے جسم پر اچھے نہیں لگتے انہیں اکھاڑنا اور تھریڈنگ وغیرہ شرعامنع ہے ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا رنگ اس طرح کا کر لیا جائے کہ نمایاں محسوس نہ ہوں 2۔ بعض افراد کے ابر و درمیان سے ملے ہوئے ہو تے ہیں وہ انہیں درمیان سے مونڈ کر فاصلہ پیدا کرلیتے ہیں ، یا عورتیں ابر و باریک کرنے کے لیے انہیں ( اوپر یا نیچے سے )مونڈ دیتی ہیں ۔ یہ سب منع ہے ، اور اسی ممنوعکام میں شامل ہے 3۔ عربوں میں یہ بات بھی حسن شمار ہوتی تھی کہ سامنے کے دانت ، باہم ملے ہو ئے نہ ہوں ۔ اس مقد کے لیے عورتیں دانتوں کو درمیان سے رگڑ کرفاصلہ پیدا کر لیتی تھیں ، یہ عمل جائز نہیں ۔ 4۔ مردوں کا ڈاڑھی کا خط بنوانا یعنی رخساروں پر سے مونڈ دینا بھی اس قسم کا عمل ہے کیونکہ پوری ڈاڑہی رکھنا شرعا مطلوب ہے اور رخساروں کے بالوں کو ڈاڑھی سے خارج کرنے کی کوئی قابل اعتماددلیل موجود نہیں 5۔ عالم آدمی کو اپنے گھر والوں کے اعمال کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کیوکہ اس کی غلطی دوسروں کےلیے جواز بن جات یہے 6۔ حدیث کے ماسائل قرآن مجید کے برابر اہمیت رکھتے ہیں جو حدیث محدثین کے اصول کےمطابق صحیح ہو ، اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح قرآ ن کےعمل ضروری نہیں ہے ۔ 7۔ اگر عالم کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے چاہیے فورا اس کا ازالہ کرے 8۔ صحابہ کرام کی نظر میں احکام شریعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی خلاف درزی پر وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتے تھے ۔ 9۔ جو عورت نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور سمجھانے پر بھی باز نہ آئے ، اس کی بات ماننے کی بجائے اس سے الگ ہو جانا بہتر ہے ۔ 1۔ بال نوچنے سے مراد چہرے وغیرہ کے بال ہیں جو عورتوں کے جسم پر اچھے نہیں لگتے انہیں اکھاڑنا اور تھریڈنگ وغیرہ شرعامنع ہے ۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا رنگ اس طرح کا کر لیا جائے کہ نمایاں محسوس نہ ہوں 2۔ بعض افراد کے ابر و درمیان سے ملے ہوئے ہو تے ہیں وہ انہیں درمیان سے مونڈ کر فاصلہ پیدا کرلیتے ہیں ، یا عورتیں ابر و باریک کرنے کے لیے انہیں ( اوپر یا نیچے سے )مونڈ دیتی ہیں ۔ یہ سب منع ہے ، اور اسی ممنوعکام میں شامل ہے 3۔ عربوں میں یہ بات بھی حسن شمار ہوتی تھی کہ سامنے کے دانت ، باہم ملے ہو ئے نہ ہوں ۔ اس مقد کے لیے عورتیں دانتوں کو درمیان سے رگڑ کرفاصلہ پیدا کر لیتی تھیں ، یہ عمل جائز نہیں ۔ 4۔ مردوں کا ڈاڑھی کا خط بنوانا یعنی رخساروں پر سے مونڈ دینا بھی اس قسم کا عمل ہے کیونکہ پوری ڈاڑہی رکھنا شرعا مطلوب ہے اور رخساروں کے بالوں کو ڈاڑھی سے خارج کرنے کی کوئی قابل اعتماددلیل موجود نہیں 5۔ عالم آدمی کو اپنے گھر والوں کے اعمال کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کیوکہ اس کی غلطی دوسروں کےلیے جواز بن جات یہے 6۔ حدیث کے ماسائل قرآن مجید کے برابر اہمیت رکھتے ہیں جو حدیث محدثین کے اصول کےمطابق صحیح ہو ، اس پر عمل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح قرآ ن کےعمل ضروری نہیں ہے ۔ 7۔ اگر عالم کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو اسے چاہیے فورا اس کا ازالہ کرے 8۔ صحابہ کرام کی نظر میں احکام شریعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی خلاف درزی پر وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتے تھے ۔ 9۔ جو عورت نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور سمجھانے پر بھی باز نہ آئے ، اس کی بات ماننے کی بجائے اس سے الگ ہو جانا بہتر ہے ۔