Book - حدیث 1981

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ وَهِيَ غَضْبَى، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ، فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دُونَكِ، فَانْتَصِرِي» ، فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا، مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ

ترجمہ Book - حدیث 1981

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: عورتوں سے حسن سلوک حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓا نے فرمایا: مجھے پتہ بھی نہ چلا حتی کہ زینب ؓا بغیر اجازت ہی میرے حجرے میں آ گئیں، وہ (اس وقت) بہت غصے میں تھیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب ابوبکر کی بچی آپ کے سامنے ننھے ننھے بازو ہلاتی ہے تو کیا آپ کو یہی بات کافی ہوتی ہے؟ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئیں (اور غصے کااظہار کرنے لگیں) میں نے منہ پھیر لیا۔ (اور ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا کہ کہیں نبی ﷺ کو ناگوار نہ گزرے۔) حتی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم بھی بدلہ لے لو۔ میں ان کی طرف پلٹی (اور خوب جواب دیا) حتی کہ میں نے دیکھا کہ ان کے منہ میں لعاب خشک ہو گیا ہے اور وہ میری باتوں کا کوئی جواب نہیں دے رہی ہیں، میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ مبارک چمک رہا تھا۔
تشریح : 1۔ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں ۔ ان کی والد ہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب تھا۔ (تھذیب التہذیب ،از حافظ بان حجر ،ترجمہ زینب بنت جحش ) اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کا نکاح وحی کے ذریعے سے کردیا تھا ۔ دنیا میں انجاب و قبول کی ضرورت نہیں پڑی ۔ ( دیکھیے سورۃ احزاب ، آیت : 37 ) حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے غصے کا اظہار ان فطری جذبات کی بنا پر تھا جو ایک سوکن کو دوسری سے ہو سکتے ہیں ، اسی لیے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ’’بنیۃ ‘( چھوٹی سی بیٹی ۔ بچی ) کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جواب دینے کی دجازت دینا انصاف کی بنا پر تھا ، اس لیے حضرت عائشہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہما کو خاموش کرادیا تو نبیﷺ کو خوشی ہوئی ۔ عورتوں کی معمولی باتوں اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نظر انداز کردینا چاہیے یامناسب انداز سےمطمئن کردینا چاہیے ۔ 1۔ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں ۔ ان کی والد ہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب تھا۔ (تھذیب التہذیب ،از حافظ بان حجر ،ترجمہ زینب بنت جحش ) اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کا نکاح وحی کے ذریعے سے کردیا تھا ۔ دنیا میں انجاب و قبول کی ضرورت نہیں پڑی ۔ ( دیکھیے سورۃ احزاب ، آیت : 37 ) حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے غصے کا اظہار ان فطری جذبات کی بنا پر تھا جو ایک سوکن کو دوسری سے ہو سکتے ہیں ، اسی لیے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ’’بنیۃ ‘( چھوٹی سی بیٹی ۔ بچی ) کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جواب دینے کی دجازت دینا انصاف کی بنا پر تھا ، اس لیے حضرت عائشہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہما کو خاموش کرادیا تو نبیﷺ کو خوشی ہوئی ۔ عورتوں کی معمولی باتوں اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کو نظر انداز کردینا چاہیے یامناسب انداز سےمطمئن کردینا چاہیے ۔