Book - حدیث 198

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: «يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرْضَهُ بِيَدِهِ، وَقَبَضَ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا» ، ثُمَّ يَقُولُ: «أَنَا الْجَبَّارُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟» ، قَالَ: وَيَتَمَيَّلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي أَقُولُ: أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 198

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، جب کہ آپ منبر پر تشریف فر تھے، آپ فر رہے تھے:‘‘ جبار اپنے آسمانوں کو اور اپنی زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔’’ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی مٹھی بند کی، پھر اسے کھولنے اور بند کرنے لگے۔( فرمایا:) ‘‘ پھر فرمائے گا: جبار تو میں ہوں، ( دنیا کے نام نہاد) جار( آج) کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ’’ آپ ﷺ ( نے یہ الفاظ اس قدر چوش سے ارشاد فرمائے کہ) دائیں بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کی طرف نظر کی تو وہ نیچے تک اتنا ہل رہا تھا کہ میں( دل میں) کہہ رہا تھا کہیں وہ(منبر) رسول اللہ ﷺ کو گرا تو نہ دے گا؟
تشریح : (1) اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے۔ ہاتھ سے مراد قدرت لینا باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کر کے بات کو واضح فرما دیا ہے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ذرہ بھر تعجب نہ ہوا، ورنہ خلاف عقل بات سمجھ کر ضرور سوال کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو من و عن تسلیم کرتے تھے۔ كما يليق بجلاله. (اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی عظیم اور وسیع مخلوق اللہ تعالیٰ کے لیے ایک معمولی ذرے کی طرح ہے۔ (3) وعظ میں مناسب موقع پر جوش یا غضب کا اظہار جائز ہے۔ (4) تکبر (بڑائی کا اظہار) بہت بڑی خصلت ہے جو انسان جیسی ضعیف اور حقیر مخلوق کے لائق نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ہی اس لائق ہے کہ وہ تکبر یعنی بڑائی اور عظمت کے اظہار کی صفت سے متصف ہو۔ (1) اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے۔ ہاتھ سے مراد قدرت لینا باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کر کے بات کو واضح فرما دیا ہے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ذرہ بھر تعجب نہ ہوا، ورنہ خلاف عقل بات سمجھ کر ضرور سوال کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو من و عن تسلیم کرتے تھے۔ كما يليق بجلاله. (اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی عظیم اور وسیع مخلوق اللہ تعالیٰ کے لیے ایک معمولی ذرے کی طرح ہے۔ (3) وعظ میں مناسب موقع پر جوش یا غضب کا اظہار جائز ہے۔ (4) تکبر (بڑائی کا اظہار) بہت بڑی خصلت ہے جو انسان جیسی ضعیف اور حقیر مخلوق کے لائق نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ہی اس لائق ہے کہ وہ تکبر یعنی بڑائی اور عظمت کے اظہار کی صفت سے متصف ہو۔