Book - حدیث 1972

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْمَرْأَةِ تَهَبُ يَوْمَهَا لِصَاحِبَتِهَا صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، جَمِيعًا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَمَّا كَبِرَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِيَوْمِ سَوْدَةَ»

ترجمہ Book - حدیث 1972

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: عورت اپنی باری دوسری بیوی کو دے سکتی ہے حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب حضرت سودہ بنت زمعہ ؓا عمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوں نے اپنا دن حضرت عائشہ ؓا کو بخش دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ حضرت سودہ ؓا کی باری کا دن بھی حضرت عائشہ ؓا کی باری میں شمار کرتے تھے۔
تشریح : 1۔ خاوند کا باری کے مطابق اپنی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے ، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے ۔ باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے ۔مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے ۔ رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : (تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ )(الاحزاب :51) ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے ۔ اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا نے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے ۔ یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے ۔ 1۔ خاوند کا باری کے مطابق اپنی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے ، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے ۔ باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے ۔مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے ۔ رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : (تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ )(الاحزاب :51) ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے ۔ اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا نے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے ۔ یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے ۔