Book - حدیث 197

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ، سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْمِيزَانُ، يَرْفَعُ الْقِسْطَ وَيَخْفِضُ، قَالَ: أَرَأَيْتَ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مِمَّا فِي يَدَيْهِ شَيْئًا

ترجمہ Book - حدیث 197

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘ اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھر پور ہے، کوئی شے اس( کے خزانوں ) کو کم نہیں کرتی، وہ رات دن فراواں عطا فرماتا ہے۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ ترازو کو اونچا کرتا ہے اور جھکاتا ہے۔ غور کرو جب سے اللہ نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا ہے، (تب سے اب تک) کس قدر( بے حساب ) خرچ کردیا ہوگا؟ اس کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھوں میں ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔’’
تشریح : (1) اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پت ہے، مثلا: (دیکھیے سورہ ص:75) (2) اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن ، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے: (كلتا يديه يمين) (صحيح مسلم‘ الامارة‘ باب فضيلة الامير العادل‘ حديث:1827) اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت) کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ مین برکت نہیں۔ اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔ (3) ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر) کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ) (الحجر:21) ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن) ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔ (4) اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔ کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔ بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔ ارشاد ہے: (إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ) (یس:82) وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ (5) جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔ کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ) (الرحمن:29) سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔ (1) اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پت ہے، مثلا: (دیکھیے سورہ ص:75) (2) اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن ، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے: (كلتا يديه يمين) (صحيح مسلم‘ الامارة‘ باب فضيلة الامير العادل‘ حديث:1827) اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت) کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ مین برکت نہیں۔ اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔ (3) ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر) کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ) (الحجر:21) ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن) ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔ (4) اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔ کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔ بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔ ارشاد ہے: (إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ) (یس:82) وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔ (5) جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔ کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ) (الرحمن:29) سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔