Book - حدیث 1963

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النَّهْيِ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ حَرَّمَهَا، وَاللَّهِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا يَتَمَتَّعُ وَهُوَ مُحْصَنٌ إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ، إِلَّا أَنْ يَأْتِيَنِي بِأَرْبَعَةٍ يَشْهَدُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ أَحَلَّهَا بَعْدَ إِذْ حَرَّمَهَا»

ترجمہ Book - حدیث 1963

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: نکاح متعہ کی ممانعت حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: جب حضرت عمر بن خطاب ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین دن تک متعہ کی اجازت دی تھی، پھر اسے حرام فر دیا۔ قسم ہے اللہ کی! مجھے جس شخص کے بارے میں متعہ کرنے کی اطلاع ملے گی، اگر وہ شادی شدہ ہوا تو میں اسے پتھروں سے رجم کروا دوں گا۔ سوائے اس کے کہ وہ چار گواہ لے کر آئے جو اس بات کی گواہی دیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی حرمت کا اعلان کرنے کے بعد اسے حلال قرار دے دیا تھا۔
تشریح : 1۔حضرت عمر نے اس بات کا انکار نہیں فرمایا کہ ایک وقت متعہ جائز رہا ہے بلکہ یہ واضح فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ متعہ حرام ہونے کا ہے ۔ اگر عالم کو یقین ہو جائے کہ کسی مسئلہ میں اس کا موقف غلط تھا تو اسے رجوع کر لینا چاہیے ۔ حضرت عمر کے سامنے کسی نے اس بات کی گواہی نہیں دی کہ آخری حکم جواز کا ہے ۔ گویا صحابہ کا بالاتفاق یہ موقف تھا کہ متعہ جائز نہیں ۔ اس کے بعد کسی ایک صحابی کا قول قابل عمل نہیں رہتا۔ جاہلیت میں جو نکاح جائز سمجھے جاتے تھے اور اسلام میں حرام ہو گئے ان نکاحوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اس قسم کا نکا ح کرتا ہے تو اسے نکاح نہیں بلکہ بدکاری قرار دیا جائے گا اور اسے مجرم قرار دے کر حد لگائی جائے گی۔ 1۔حضرت عمر نے اس بات کا انکار نہیں فرمایا کہ ایک وقت متعہ جائز رہا ہے بلکہ یہ واضح فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ متعہ حرام ہونے کا ہے ۔ اگر عالم کو یقین ہو جائے کہ کسی مسئلہ میں اس کا موقف غلط تھا تو اسے رجوع کر لینا چاہیے ۔ حضرت عمر کے سامنے کسی نے اس بات کی گواہی نہیں دی کہ آخری حکم جواز کا ہے ۔ گویا صحابہ کا بالاتفاق یہ موقف تھا کہ متعہ جائز نہیں ۔ اس کے بعد کسی ایک صحابی کا قول قابل عمل نہیں رہتا۔ جاہلیت میں جو نکاح جائز سمجھے جاتے تھے اور اسلام میں حرام ہو گئے ان نکاحوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اس قسم کا نکا ح کرتا ہے تو اسے نکاح نہیں بلکہ بدکاری قرار دیا جائے گا اور اسے مجرم قرار دے کر حد لگائی جائے گی۔