Book - حدیث 1956

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الرَّجُلِ يُعْتِقُ أَمَتَهُ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ» قَالَ صَالِحٌ: قَالَ الشَّعْبِيُّ: «قَدْ أَعْطَيْتُكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ، إِنْ كَانَ الرَّاكِبُ لَيَرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ»

ترجمہ Book - حدیث 1956

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لینا حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کی کوئی لونڈی ہو اور وہ اسے اچھے طریقے سے ادب تمیز سکھائے اور اچھی تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا اور حضرت محمد ﷺ پر بھی ایمان لایا، اس کے لیے دو ثواب ہیں اور وہ غلام انسان جو اپنے ذمے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے مالکوں کا حق بھی ادا کرتا ہے، اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ امام شعبی نے (اپنے شاگرد کو یہ حدیث سنا کر) فرمایا: میں نے تجھے یہ حدیث مفت ہی دے دی ہے، حالانکہ اس سے کم تر حدیث کے لیے مدینے کا سفر کیا جاتا تھا۔
تشریح : 1۔’’ دو ثواب‘‘ ہونے کا مطلب دوگنا ثواب ہے کیونکہ عمل کرنے والے نے دو طرح کی نیکی کی ہے لہذا اس کی نیکی دوسروں کی نیکی سے زیادہ اہمیت و فضیلت رکھتی ہے ۔ لونڈی غلام خدمت لینے کے لیے خریدے جاتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ان پر ایک عظیم احسان ہے پھر لونڈی کو آزاد کر دینا ایک اور احسان ہے اس کے بعد اس سے نکاح کر لینے کو اس نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ گویا آزادی کی نفی ہے بلکہ یہ احسان کی تکمیل ہے کہ لونڈی کو آزاد بیوی والے پورے حقوق حاصل ہو گئے ۔ اگر ایک یہودی توحید پر قائم رہتے ہوئے حضرت موسیٰ پر ایمان رکھٹا ہے یا عیسائی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو جب تک اسے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا علم نہیں ہوتا ، اس کا ایمان صحیح ہے ، پھر جب اسے نبیﷺ کی بعثت کا علم ہوتا ہے اور وہ آپ پرایمان لے آتا ہے اس طرح اس نے دو نیکیاں کی ہیں جیسے حضرت نجاشی ﷫ کا واقعہ ہے ۔ لونڈی غلام اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے انہیں وہ نیکیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا جو آزاد مسلمان کر سکتا ہے اس کے باوجود اگر وہ نماز روزہ کی پابندی کرتے ہیں اور شریعت کے جو احکام ایک لونڈی غلام پر عائد ہوتے ہیں وہ ان کی تکمیل کرتے ہیں تو ان کی زندگی واقعی ایک امتیازی شان رکھتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ امام شعمی ﷫ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بغیر مشقت کے علم حاصل ہو رہا ہے ۔ استاد کو چاہیے کہ شاگردوں کو علم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائے تاکہ وہ شوق سے علم حاصل کریں اور اسے پوری اہمیت دیں ۔ 1۔’’ دو ثواب‘‘ ہونے کا مطلب دوگنا ثواب ہے کیونکہ عمل کرنے والے نے دو طرح کی نیکی کی ہے لہذا اس کی نیکی دوسروں کی نیکی سے زیادہ اہمیت و فضیلت رکھتی ہے ۔ لونڈی غلام خدمت لینے کے لیے خریدے جاتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ان پر ایک عظیم احسان ہے پھر لونڈی کو آزاد کر دینا ایک اور احسان ہے اس کے بعد اس سے نکاح کر لینے کو اس نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ گویا آزادی کی نفی ہے بلکہ یہ احسان کی تکمیل ہے کہ لونڈی کو آزاد بیوی والے پورے حقوق حاصل ہو گئے ۔ اگر ایک یہودی توحید پر قائم رہتے ہوئے حضرت موسیٰ پر ایمان رکھٹا ہے یا عیسائی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو جب تک اسے حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا علم نہیں ہوتا ، اس کا ایمان صحیح ہے ، پھر جب اسے نبیﷺ کی بعثت کا علم ہوتا ہے اور وہ آپ پرایمان لے آتا ہے اس طرح اس نے دو نیکیاں کی ہیں جیسے حضرت نجاشی ﷫ کا واقعہ ہے ۔ لونڈی غلام اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں اس لیے انہیں وہ نیکیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا جو آزاد مسلمان کر سکتا ہے اس کے باوجود اگر وہ نماز روزہ کی پابندی کرتے ہیں اور شریعت کے جو احکام ایک لونڈی غلام پر عائد ہوتے ہیں وہ ان کی تکمیل کرتے ہیں تو ان کی زندگی واقعی ایک امتیازی شان رکھتی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ امام شعمی ﷫ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بغیر مشقت کے علم حاصل ہو رہا ہے ۔ استاد کو چاہیے کہ شاگردوں کو علم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائے تاکہ وہ شوق سے علم حاصل کریں اور اسے پوری اہمیت دیں ۔