كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ رِضَاعِ الْكَبِيرِ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ الْكَرَاهِيَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْضِعِيهِ» ، قَالَتْ: كَيْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ» ، فَفَعَلَتْ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ شَيْئًا أَكْرَهُهُ بَعْدُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: بڑی عمر کے بچے یا مرد کو دودھ پلانا
ام المومنین حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت سہلہ بنت سہیل ؓا نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جب سالم میرے ہاں آتے ہیں تو مجھے (اپنے شوہر) حضرت ابوحذیفہ ؓ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا: اسے دودھ پلا دو۔ انہوں نے کہا: میں اسے کس طرح دودھ پلاؤں، وہ تو جوان آدمی ہے؟ رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ جوان آدمی ہے۔ سہلہ ؓا نے ایسے ہی کیا۔ (بعد میں) وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: اس کے بعد میں نے حضرت ابوحذیفہ ؓ کے چہرے پر وہ تاثرات نہیں دیکھے جو مجھے ناگوار ہوں۔ حضرت ابوحذیفہ ؓ جنگ بدر میں شریک تھے۔
تشریح :
1۔اس حدیث کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ موقف تھا کہ دودھ جس عمر میں بھی پیا جائے اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے لیکن دوسری امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے اس سے اتفاق نہیں کیا جیسے اگلے باب میں آرہا ہے ۔ ( دیکھیئے حدیث : 1947)
حضرت سالم حضرت ابوحذیفہ کے منہ بولے بیٹے تھے جسے انہوں نے اور ان کی بیوی حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا نے پالا تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کا رواج ختم فرما دیا تو انہیں پردہ کرنے میں مشکل محسوس ہوئی کیونکہ ان کی رہائش اس گھر میں تھی ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ سالم ) ) کو دودھ پلا دیں تاکہ پردے کی پابندی اٹھ جائے ۔
امہات المومنین نے اس حکم کو حضرت سالم کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت بعض علماء نے اس قسم کے حالات میں اسے جائز رکھا ہے جس قسم کے حالات حضرت سالم اور حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو درپیش تھے ۔ احتیاط اسی میں ہے کہ اس رضاعت کو بچپن کی رضاعت کا حکم نہ دیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔ امام بخاری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔ ( صحیح البخاری ، النکاح ، باب من قال : لا رضاع بعد الحولین ....، حدیث : 5102) امام ابن تیمیہ اور امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں تو نہیں مگر کہیں خاص اضطراری احوال میں اس پر عمل کی گنجائش ہے ۔ (نیل الاوطار : 6؍353)
1۔اس حدیث کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ موقف تھا کہ دودھ جس عمر میں بھی پیا جائے اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے لیکن دوسری امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے اس سے اتفاق نہیں کیا جیسے اگلے باب میں آرہا ہے ۔ ( دیکھیئے حدیث : 1947)
حضرت سالم حضرت ابوحذیفہ کے منہ بولے بیٹے تھے جسے انہوں نے اور ان کی بیوی حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا نے پالا تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کا رواج ختم فرما دیا تو انہیں پردہ کرنے میں مشکل محسوس ہوئی کیونکہ ان کی رہائش اس گھر میں تھی ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ سالم ) ) کو دودھ پلا دیں تاکہ پردے کی پابندی اٹھ جائے ۔
امہات المومنین نے اس حکم کو حضرت سالم کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت بعض علماء نے اس قسم کے حالات میں اسے جائز رکھا ہے جس قسم کے حالات حضرت سالم اور حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو درپیش تھے ۔ احتیاط اسی میں ہے کہ اس رضاعت کو بچپن کی رضاعت کا حکم نہ دیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔ امام بخاری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ۔ ( صحیح البخاری ، النکاح ، باب من قال : لا رضاع بعد الحولین ....، حدیث : 5102) امام ابن تیمیہ اور امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں تو نہیں مگر کہیں خاص اضطراری احوال میں اس پر عمل کی گنجائش ہے ۔ (نیل الاوطار : 6؍353)