كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَضَى اللَّهُ أَمْرًا فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ أَجْنِحَتَهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، {إِذَا فُزِّعَ} عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، قَالَ: فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ بَعْضُهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَهُ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا إِلَى الَّذِي تَحْتَهُ، فَيُلْقِيهَا عَلَى لِسَانِ الْكَاهِنِ، أَوِ السَّاحِرِ، فَرُبَّمَا لَمْ يُدْرَكْ حَتَّى يُلْقِيَهَا، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَتَصْدُقُ تِلْكَ الْكَلِمَةُ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ
کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت
باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے فرمان الٰہی سن کر اپنے پر ہلا کر خشوع کا اظہار کرتے ہیں۔( وہ آواز اتنی پر ہیبت ہوتی ہے) گویا وہ ہموار پتھر پر زنجیر( ٹکرانے کی آواز) ہے۔ حتی کہ جب ان کے دلوں سے خوف کا اثر ختم ہوتا ہے تو( ایک دوسرے سے) کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں: سچ فرمایا، اور وہ بلندیوں والا، کبریائی والا ہے۔ پھر چوری چھپے سننے والے اسے سننے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔ تو( ان میں سے کوئی ) ایک لفظ سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے کو بتاتا ہے۔ کبھی تو اسے شہاب ثاقب آلیتا ہے، قبل اس سے کہ وہ اپنے سے نیچے والے کو بتائے، جسے وہ چادو گریا کاہن کی زبان پر جاری کرے۔ اور کبھی اس تک نہیں پہنچتا حتی کہ وہ اپنے سے نیچے والے کو بتا دیتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ( اپنے پاس سے) سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔ وہ اس میں سچی بات وہی ثابت ہوتی ہے جو آسمان سے سنی گئی تھی۔’’
تشریح :
(1) اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔ (2) فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔ (3) اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔ (4) جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ (5) کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔ مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (6) کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی چیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی نجومی (یا زَمال) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالید دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم‘ السلام‘ باب تحريم الكهانة واتيان الكهان‘ حديث:2230)
(1) اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔ (2) فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔ (3) اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔ (4) جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ (5) کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔ مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ (6) کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی چیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی نجومی (یا زَمال) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالید دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم‘ السلام‘ باب تحريم الكهانة واتيان الكهان‘ حديث:2230)