Book - حدیث 1936

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْمُحَلِّلِ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ حسن حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ الْمِصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: قَالَ لِي أَبُو مُصْعَبٍ مِشْرَحُ بْنُ هَاعَانَ، قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ» ، قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «هُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ»

ترجمہ Book - حدیث 1936

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: حلالہ کرنے اور کرانے کا بیان حضرت عقبہ بن عامر ؓ سےرروایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: :کیا میں کرائے کے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں (کہ وہ کون ہوتا ہے؟ ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: جی ہاں (بتائیے) اے اللہ کے رسول! فرمایا: وہ حلالہ کرنے والاہے، اللہ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔
تشریح : 1-اگر ایک عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں اور اس کا خاوند اس سے پھر رجوع کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے جائز نہیں ۔ اس وقت اگر کوئی دوسرا مرد اس عورت سے نکاح کر لے اور اس کا مقصد اس کے ساتھ باقاعدہ ازدواجی زندگی گزارنا نہ ہو بلکہ محض یہ مقصد ہو کہ نکاح اور خلوت کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا تاکہ پہلا خاوند اس سے نئےسرے سے نکاح کر سکے ، اور جو کام اس کے لیے حرام تھا ، وہ حلال ہو جائے ۔ اس عارضی نکاح کو حلالہ کہتے ہیں جسے اس حدیث میں لعنتی فعل قرار دیا گیا ہے ۔ شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : [انما الاعمال بالنیات]( صحیح البخاری ، بدء الوحی ، باب کیف کان یدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ ....حدیث :1) ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔‘‘ چونکہ نکاح حلالہ کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شرعی نکاح میں مطلوب ہے ، اس لیے شرعی طور پر یہ نکاح ہی نہیں ہے بلکہ ایک حیلہ ہے اور یہ حیلہ بہت بڑا گنا ہے ۔ لعنت سے حلالہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جائز کام پر لعنت نہیں ہو سکتی ۔ حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دینے سے اس عمل کی شناعت کی طرف اشارہ ہے ۔جس طرح جانوروں کی نسل کشی کے لیے سانڈ لیا جاتا ہے تاکہ وہ جفتی کر کے مونث جانوروں کو حاملہ کر دے ، پھر وہ اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے ۔ اسی طرح حلالہ کرنے والے کو حلالہ کرانے والا وقتی طور پر عورت سے تعلق قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے تاکہ وہ خلوت کے بعد اسے طلاق دے کر پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے ۔ جس طرح سانڈ کرائے پر لینے والے کی ملکیت نہیں بن جاتا ، اسی طرح حلالہ کرنے والا عورت سے مستقل تعلق قائم نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال میں خاوند کی ضرورت پوری کرکے عورت سے الگ ہو جاتا ہے ۔ اس طرح یہ شیعوں کے ہاں رائج متعہ کی طرح ناجائز تعلق کی ایک صورت ہے ، جس کو ’’ نکاح ‘‘ کا نام دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ 1-اگر ایک عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں اور اس کا خاوند اس سے پھر رجوع کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے جائز نہیں ۔ اس وقت اگر کوئی دوسرا مرد اس عورت سے نکاح کر لے اور اس کا مقصد اس کے ساتھ باقاعدہ ازدواجی زندگی گزارنا نہ ہو بلکہ محض یہ مقصد ہو کہ نکاح اور خلوت کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا تاکہ پہلا خاوند اس سے نئےسرے سے نکاح کر سکے ، اور جو کام اس کے لیے حرام تھا ، وہ حلال ہو جائے ۔ اس عارضی نکاح کو حلالہ کہتے ہیں جسے اس حدیث میں لعنتی فعل قرار دیا گیا ہے ۔ شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : [انما الاعمال بالنیات]( صحیح البخاری ، بدء الوحی ، باب کیف کان یدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ ....حدیث :1) ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔‘‘ چونکہ نکاح حلالہ کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شرعی نکاح میں مطلوب ہے ، اس لیے شرعی طور پر یہ نکاح ہی نہیں ہے بلکہ ایک حیلہ ہے اور یہ حیلہ بہت بڑا گنا ہے ۔ لعنت سے حلالہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جائز کام پر لعنت نہیں ہو سکتی ۔ حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دینے سے اس عمل کی شناعت کی طرف اشارہ ہے ۔جس طرح جانوروں کی نسل کشی کے لیے سانڈ لیا جاتا ہے تاکہ وہ جفتی کر کے مونث جانوروں کو حاملہ کر دے ، پھر وہ اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے ۔ اسی طرح حلالہ کرنے والے کو حلالہ کرانے والا وقتی طور پر عورت سے تعلق قائم کرنے کی درخواست کرتا ہے تاکہ وہ خلوت کے بعد اسے طلاق دے کر پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے ۔ جس طرح سانڈ کرائے پر لینے والے کی ملکیت نہیں بن جاتا ، اسی طرح حلالہ کرنے والا عورت سے مستقل تعلق قائم نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال میں خاوند کی ضرورت پوری کرکے عورت سے الگ ہو جاتا ہے ۔ اس طرح یہ شیعوں کے ہاں رائج متعہ کی طرح ناجائز تعلق کی ایک صورت ہے ، جس کو ’’ نکاح ‘‘ کا نام دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔