كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتُزَوَّجُ فَيُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا أَتَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّ مَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ»
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: جس عورت کو مرد تین طلاقیں دے دے ، پھر وہ ( دوسرے مرد سے) نکاح کر لے اور دوسرا مرد اس سے خلوت کرنے سے پہلے طلاق دے دے کیا وہ پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے؟
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی ؓ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میں رفاعہ قرظی ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے دی اور بتہ طلاق (آخری طلاق) بھی دے ڈالی۔ (اس کے بعد) میں نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر سے نکاح کر لیا۔ (لیکن) ان کے پاس تو جو کچھ ہے وہ کپڑے کے سرے کی طرح ہے۔ نبی ﷺ مسکرائے اور فرمایا: تم دوبارہ رفاعہ (ؓ) سے نکاح کرنا چاہتی ہو؟ نہیں، نہیں، (یہ نہیں ہو سکتا) حتی کہ تو اس (عبدالرحمٰن) سے لذت حاصل کرے اور وہ تجھ سے لذت حاصل کرے۔
تشریح :
1۔مرد کو حق حاصل ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ حق طلاق محدود ہے ، یعنی پوری زندگی میں اسے صرف تین مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے ۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ) ( البقرہ : 229) ’’ ( رجعی ) طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے ۔‘‘
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا بلکہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے ۔
اگر کسی وجہ سے دوسرے مرد سے نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے تو پھر عورت اگر چاہے تو پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پہلے خاوند سےنکاح کیا جائے بلکہ کسی تیسرے آدمی سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔
پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے خاوند نے مقاربت کے بعد طلاق دی ہو ۔ اگر دوسرے نے مقاربت سے پہلے طلاق دی ہو تو پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا ۔ کسی تیسرے آدمی سے جائز ہو گا ۔
طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ۔ اگر عورت سےنکاح کر کے خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو یہ پہلی ہی بتہ ، یعنی آخری طلاق ہے ۔ اگر آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے نکاح کیا گیا ہو تو دوسری طلاق آخری ہے ۔ باقی حالات میں تیسری طلاق آخری ہے ۔
1۔مرد کو حق حاصل ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ حق طلاق محدود ہے ، یعنی پوری زندگی میں اسے صرف تین مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے ۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ) ( البقرہ : 229) ’’ ( رجعی ) طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے ۔‘‘
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا بلکہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے ۔
اگر کسی وجہ سے دوسرے مرد سے نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے تو پھر عورت اگر چاہے تو پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پہلے خاوند سےنکاح کیا جائے بلکہ کسی تیسرے آدمی سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے ۔
پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے خاوند نے مقاربت کے بعد طلاق دی ہو ۔ اگر دوسرے نے مقاربت سے پہلے طلاق دی ہو تو پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا ۔ کسی تیسرے آدمی سے جائز ہو گا ۔
طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ۔ اگر عورت سےنکاح کر کے خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو یہ پہلی ہی بتہ ، یعنی آخری طلاق ہے ۔ اگر آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے نکاح کیا گیا ہو تو دوسری طلاق آخری ہے ۔ باقی حالات میں تیسری طلاق آخری ہے ۔