Book - حدیث 1925

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ النَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ صحیح حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَتْ يَهُودُ تَقُولُ: مَنْ أَتَى امْرَأَةً فِي قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا، كَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} [البقرة: 223]

ترجمہ Book - حدیث 1925

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: عورت کی دبر میں مجامعت کرنے کی حرمت کا بیان حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: یہودی کہا کرتے تھے کہ جو کوئی پچھلی طرف سے ہو کر عورت سے اگلی جگہ میں مباشرت کرتا ہے، اس کا بیٹا بھینگا پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی: (نِسَآؤُكُمْ حَرْ‌ثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا۟ حَرْ‌ثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ) تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔
تشریح : 1۔مباشرت کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے ، خواہ عورت چت لیٹی ہوئی ہو یا پیٹ کے بل یا کروٹ پر تاہم یہ ضروری ہے کہ صرف وہی راستہ اختیار کیا جائے جس کی شرع نے اجازت دی ہے یعنی صرف عورت کی قبل ( اگلی شرمگاہ ) استعمال کی جائے ۔ عورت سے صنفی تعلق کا اہم مقصد اولاد کا حصول ہے ، اسی لیے عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ مرد کسان کی طرح اس زمین میں بیج بوتا ہے جس سے اسے اولاد کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے فطری فعل کرنا جائز نہیں کیونکہ کھیت سے باہر جوہڑ وغیرہ میں بیج پھینک دینا حماقت ہے ۔ (أَنَّىٰ شِئْتُمْ) کا مطلب ’’ جہاں سے چاہو ‘‘ بھی کیا جائے تو بھی غیر فطری عمل کا جواز ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ صرف [حرث] ’’ کھیتی کی جگہ ‘‘ میں آنے کا حکم دیا گیا ہے کسی اور جگہ نہیں خواہ براہ راست آگے سے آئے یا پیچھے سے ہو کر آگے آئے ۔ معاشرے میں موجود توہمات کی تردید کر کے حقیقت واضح کرتے رہنا چاہیے۔ 1۔مباشرت کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے ، خواہ عورت چت لیٹی ہوئی ہو یا پیٹ کے بل یا کروٹ پر تاہم یہ ضروری ہے کہ صرف وہی راستہ اختیار کیا جائے جس کی شرع نے اجازت دی ہے یعنی صرف عورت کی قبل ( اگلی شرمگاہ ) استعمال کی جائے ۔ عورت سے صنفی تعلق کا اہم مقصد اولاد کا حصول ہے ، اسی لیے عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ مرد کسان کی طرح اس زمین میں بیج بوتا ہے جس سے اسے اولاد کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے فطری فعل کرنا جائز نہیں کیونکہ کھیت سے باہر جوہڑ وغیرہ میں بیج پھینک دینا حماقت ہے ۔ (أَنَّىٰ شِئْتُمْ) کا مطلب ’’ جہاں سے چاہو ‘‘ بھی کیا جائے تو بھی غیر فطری عمل کا جواز ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ صرف [حرث] ’’ کھیتی کی جگہ ‘‘ میں آنے کا حکم دیا گیا ہے کسی اور جگہ نہیں خواہ براہ راست آگے سے آئے یا پیچھے سے ہو کر آگے آئے ۔ معاشرے میں موجود توہمات کی تردید کر کے حقیقت واضح کرتے رہنا چاہیے۔