كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْإِقَامَةِ عَلَى الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَقَالَ: «لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي»
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: کنواری اور ثیبہ ( دلھن) کے پاس ٹھہرنے کا بیان
حضرت ام سلمہ ؓا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ام سلمہ ؓا سے شادی کی تو دن تین ان کے ہاں ٹھہرے، پھر فرمایا: تیرے خاوند (ﷺ) کی نظر میں تیرا مقام کم نہیں۔ اگر تو چاہے تو سات دن تیرے پاس ٹھہروں۔ اور اگر میں سات دن تیرے پاس ٹھہرا تو دوسری بیویوں کے پاس بھی سات سات دن ٹھہروں گا۔
تشریح :
1۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہند بنت ابو امیہ ہے ۔ ان کا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا تھا ۔ حضرت ابو سلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا ، وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی برہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے ۔ جب 4 ہجری میں ان کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا ۔
اگر دلہن ثیب ( بیوہ یا مطلقہ ) ہو تب بھی اس کے پاس سات دن رہنا درست ہے لیکن اس صورت میں دوسری بیوی یا بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہ کر باری شروع کرنا ہوگی ۔
رسول اللہ ﷺ کی اس پیشکش کے جواب میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے تین دن کی مدت کا انتخاب فرمایا تھا ۔( صحیح مسلم ، الرضاع ، باب قدر ما تستحقہ البکر و الثیب من اقامۃ الزوج عندھا عقب الزفاف ، حدیث : 1460) اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس صورت میں باری جلد ملنے کی امید تھی ۔
شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
1۔ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہند بنت ابو امیہ ہے ۔ ان کا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا تھا ۔ حضرت ابو سلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا ، وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی برہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے ۔ جب 4 ہجری میں ان کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا ۔
اگر دلہن ثیب ( بیوہ یا مطلقہ ) ہو تب بھی اس کے پاس سات دن رہنا درست ہے لیکن اس صورت میں دوسری بیوی یا بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہ کر باری شروع کرنا ہوگی ۔
رسول اللہ ﷺ کی اس پیشکش کے جواب میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے تین دن کی مدت کا انتخاب فرمایا تھا ۔( صحیح مسلم ، الرضاع ، باب قدر ما تستحقہ البکر و الثیب من اقامۃ الزوج عندھا عقب الزفاف ، حدیث : 1460) اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس صورت میں باری جلد ملنے کی امید تھی ۔
شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔