Book - حدیث 190

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ حسن حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ الْحِزَامِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَمَّا قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ، لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا جَابِرُ، أَلَا أُخْبِرُكَ مَا قَالَ اللَّهُ لِأَبِيكَ؟» وَقَالَ: يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ: «يَا جَابِرُ، مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟» قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا ، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ، بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟» ، قَالَ: بَلَى: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي، تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي، فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً، فَقَالَ الرَّبُّ سُبْحَانَهُ: إِنَّهُ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يَرْجِعُونَ، قَالَ: يَا رَبِّ، فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169]

ترجمہ Book - حدیث 190

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب جنگ احمد میں( میرے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام ؓ شہید ہو گئے، تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشرف لائے اور فرمایا:‘‘ اے جابر! کیا میں تجھے نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے والد سے کیا فرمایا؟’’ دوسری سند سے اس حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ اے جابر! کیا بات ہے، میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟’’ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والد شہید ہوگئے اور بچے اور قرض چھوڑ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘ کیا میں تجھے خوشخبری نہ دوں کہ اللہ نے تیرے والد سے کس انداز سے ملاقات کی؟’’ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ضرور فرمایئے، فرمایا:‘‘ اللہ تعالیٰ نے جس سے بھی کلام کیا ہے، پردے کے پیچھے سے کیا ہے، لیکن تیرے والد سے بغیر حجاب کے کلام فرمایا۔ اور فرمایا میرے بندے! مجھ سے کسی تمنا کا اظہار کر، میں تجھے عطا فرماؤں گا۔ عبداللہ ؓ نے کہا: یا رب ! مجھے زندہ کر دے، میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا یہ فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا میں واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ انہوں نے کہا: یا رب! پھر میرے پسماندگان کو پیغام پہنچا دے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی:﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾‘‘ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس انہیں رزق دیا جاتا ہے۔’’
تشریح : (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔ (2) فوت ہونے والے کے پس ماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔ ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔ (3) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔ (4) فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔ (5) اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ (6) حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔ (7) شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔ شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آںے کی خواہش نہیں رکھتا۔ (8) فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس عقیدہ تناسخ ارواح کا بھی رد ہوتا ہے۔ (9) شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔ اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لفط اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم‘ الامارة‘ باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة‘ حديث:1887) (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔ (2) فوت ہونے والے کے پس ماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔ ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔ (3) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔ (4) فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔ (5) اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ (6) حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔ (7) شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔ شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آںے کی خواہش نہیں رکھتا۔ (8) فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس عقیدہ تناسخ ارواح کا بھی رد ہوتا ہے۔ (9) شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔ اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لفط اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم‘ الامارة‘ باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة‘ حديث:1887)