Book - حدیث 1897

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ الْغِنَاءِ وَالدُّفِّ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، وَيَتَغَنَّيْنَ، فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ يَتَغَنَّيَانِ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، وَتَقُولَانِ، فِيمَا تَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدِ، فَقَالَ: «أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ، مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ»

ترجمہ Book - حدیث 1897

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: گیت گانا اور دف بجانا حضرت ابوحسین خالد مدنی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عاشورا کے دن ہم مدینہ میں تھے۔ لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں۔ ہم حضرت زبیع بنت معوذ ؓا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے فرمایا: میری شادی کی صبح رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں گیت گا رہی تھیں، اور (شعروں میں) میرے ان بزرگوں کا ذکر کر رہی تھیں جو جنگ بدر میں شہید ہوئے۔ وہ جو شعر پڑھ رہی تھیں ان میں یہ فقرہ بھی تھا: (وفينا نبي يعلم في غد) ہمارے اندر ایک نبی ہے جو جانتا ہے کل کیا ہونے والا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ بات نہ کہو۔ کل کی باتیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
تشریح : 1۔عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں ۔ اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے ، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ۔ ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1734) رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو ۔ بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے ۔ اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے ۔ حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے ۔ ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں ۔ نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے ۔ ( صحیح البخاری ، الشروط ، باب ما یجوز من الشروط فی الاسلام وا لاحکام والمبایعۃ ، حدیث : 2713) شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے ۔ بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن علو جائز نہیں ۔ بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں ۔ مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے ۔ 1۔عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں ۔ اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے ، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ۔ ( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 1734) رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو ۔ بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے ۔ اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے ۔ حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے ۔ ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں ۔ نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے ۔ ( صحیح البخاری ، الشروط ، باب ما یجوز من الشروط فی الاسلام وا لاحکام والمبایعۃ ، حدیث : 2713) شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے ۔ بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن علو جائز نہیں ۔ بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں ۔ مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے ۔