Book - حدیث 188

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، تَشْكُو زَوْجَهَا، وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا} [المجادلة: 1]

ترجمہ Book - حدیث 188

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: فرقہ جہمیہ نے جس چیز کا انکار کیا سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام آوازوں کو سنتا ہے، تکرار کرنے والی خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں کمرے کے ایک کونے میں تھی۔ وہ( نبی ﷺ سے) اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی اور مجھے اس کی بات سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:﴿قَدْسَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا﴾‘‘اللہ تعالیٰ نے اس (عورت) کی بات سن لی جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں تکرار کر رہی تھی۔’’
تشریح : (1) اس حدیث کو اس باب میں بیان کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سننے والا ہے اور سننا اس کی صفت ہے، لیکن اللہ کی صفات بندوں کی صفات کی طرح نہیں۔ ہلکی سے ہلکی آواز اس کے علم سے باہر نہیں کیونکہ اس کی دیگر صفات کی طرح سننے کی صفت بھی لا محدود ہے۔ (2) اس حدیث اور آیت میں جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام خولہ رضی اللہ عنہا ہے جو مالک بن ثعلبہ کی بیٹٰ تھیں، ان کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے اظہار کر لیا، اس وقت تک ظہار کے کالعدم ہونے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے خاوند پر حرام ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے حالات عرض کیے کہ جدائی کی صورت میں بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تب اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ میں اس کا حل نازل فرمایا۔ (سنن ابی داود، الطلاق، باب فی الظھار، حدیث:2214) (3) ظہار کا مطلب ہے بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر خود پر حرام کر لینا، مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے: تو میرے لیے اس طرح ہے جیسے میری ماں۔ اسلام سے قبل اس صورت میں مرد اور عورت کا تعلق ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا تھا اور بیوی کو واقعی ماں کے برابر سمجھ لیا جاتا تھا۔ سورہ مجادلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، لیکن اس طرح کہنا گناہ کی بات ہے۔ یہ گناہ اس صورت مین معاف ہو سکتا ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے، یہ ممکن نہ ہو تو مسلسل دو ماہ روزے رکھے جائیں، اگر درمیان میں ناغہ ہو جائے تو نئے سرے سے گنتی شروع کی جائے۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، جب تک یہ کفارہ ادا نہ کر لیا جائے، میاں بیوی کو صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں۔ (4) بعض لوگ کسی اجنبی عورت کو ماں، بہن یا بیٹی کہہ دیتے ہیں یا کوئی عورت کسی مرد کو اپنا بھائی یا بیٹا قرار دے لیتی ہے، حالانکہ اس سے کوئی حقیقی محرم والا رشتہ نہیں ہوتا۔ پھر اس منہ بولے رشتے کی بنا پر آپس میں پردہ ختم کر دیا جاتا ہے، یہ سب غلط اور شرعا گناہ ہے جس سے اجتناب کرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے۔ (5) نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم الہی کے پابند تھے، اپنی مرضی سے حلال و حرام نہیں فرما سکتے تھے۔ جب وحی نازل ہوئی تو حکم بیان فرما دیا۔ (1) اس حدیث کو اس باب میں بیان کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ سمیع یعنی سننے والا ہے اور سننا اس کی صفت ہے، لیکن اللہ کی صفات بندوں کی صفات کی طرح نہیں۔ ہلکی سے ہلکی آواز اس کے علم سے باہر نہیں کیونکہ اس کی دیگر صفات کی طرح سننے کی صفت بھی لا محدود ہے۔ (2) اس حدیث اور آیت میں جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام خولہ رضی اللہ عنہا ہے جو مالک بن ثعلبہ کی بیٹٰ تھیں، ان کے خاوند حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے اظہار کر لیا، اس وقت تک ظہار کے کالعدم ہونے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے خاوند پر حرام ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے حالات عرض کیے کہ جدائی کی صورت میں بہت سی مشکلات پیدا ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تب اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ میں اس کا حل نازل فرمایا۔ (سنن ابی داود، الطلاق، باب فی الظھار، حدیث:2214) (3) ظہار کا مطلب ہے بیوی کو ماں سے تشبیہ دے کر خود پر حرام کر لینا، مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے: تو میرے لیے اس طرح ہے جیسے میری ماں۔ اسلام سے قبل اس صورت میں مرد اور عورت کا تعلق ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا تھا اور بیوی کو واقعی ماں کے برابر سمجھ لیا جاتا تھا۔ سورہ مجادلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، لیکن اس طرح کہنا گناہ کی بات ہے۔ یہ گناہ اس صورت مین معاف ہو سکتا ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے، یہ ممکن نہ ہو تو مسلسل دو ماہ روزے رکھے جائیں، اگر درمیان میں ناغہ ہو جائے تو نئے سرے سے گنتی شروع کی جائے۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے، جب تک یہ کفارہ ادا نہ کر لیا جائے، میاں بیوی کو صنفی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں۔ (4) بعض لوگ کسی اجنبی عورت کو ماں، بہن یا بیٹی کہہ دیتے ہیں یا کوئی عورت کسی مرد کو اپنا بھائی یا بیٹا قرار دے لیتی ہے، حالانکہ اس سے کوئی حقیقی محرم والا رشتہ نہیں ہوتا۔ پھر اس منہ بولے رشتے کی بنا پر آپس میں پردہ ختم کر دیا جاتا ہے، یہ سب غلط اور شرعا گناہ ہے جس سے اجتناب کرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے۔ (5) نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم الہی کے پابند تھے، اپنی مرضی سے حلال و حرام نہیں فرما سکتے تھے۔ جب وحی نازل ہوئی تو حکم بیان فرما دیا۔