Book - حدیث 1879

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»

ترجمہ Book - حدیث 1879

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: سرپرست کی اجازت کے بغیر ( لڑکی کا) نکاح نہیں ہوتا حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح سر پرست نے نہیں کیا، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل (کالعدم) ہے۔ اگر مرد اس سے مقاربت کر لے تو اس کی مقاربت کی وجہ سے اس عورت کو حق مہر ادا کیا جائے گا۔ اگر ان (سرپرستوں) میں باہم اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی (سرپرست) نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی (سرپرست) ہے۔
تشریح : 1۔نکاح میں جس طرح لڑکی کی رضامندی ضروری ہے ، اسی طرح اس کے سرپرست کی اجازت بھی ضروری ہے جیسے کہ حدیث 1870 میں بھی اشارہ ہے ۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعا غیر قانونی ہے لہذا اکر سرپرست اجازت دینے سے انکار کر دے تو میاں بیوی میں جدائی کرادی جائے گی ۔ مقاربت کے بعد جدائی ہونے کی صورت میں مرد کے ذمے پورا حق مہر ادا کرنا لازمی ہو گا۔ اسلامی سلطنت میں بادشاہ کو نکاح کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے ۔ اسی طرح بادشاہ کے نائب مقامی حکام بھی یہ حق رکھتے ہیں ۔موجودہ حالات میں اس قسم کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں ۔ پنچایت میں بھی یہ معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی بچی لاوارث ہو اور اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو جو سرپرست کے طور پر اس کے مفادات کا خیال کر سکے تو اس صورت میں بھی اسلامی سطلنت کو سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ مسئلہ ولایت نکاح کی مزید تحقیق و تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب ’’ مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ 1۔نکاح میں جس طرح لڑکی کی رضامندی ضروری ہے ، اسی طرح اس کے سرپرست کی اجازت بھی ضروری ہے جیسے کہ حدیث 1870 میں بھی اشارہ ہے ۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعا غیر قانونی ہے لہذا اکر سرپرست اجازت دینے سے انکار کر دے تو میاں بیوی میں جدائی کرادی جائے گی ۔ مقاربت کے بعد جدائی ہونے کی صورت میں مرد کے ذمے پورا حق مہر ادا کرنا لازمی ہو گا۔ اسلامی سلطنت میں بادشاہ کو نکاح کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے ۔ اسی طرح بادشاہ کے نائب مقامی حکام بھی یہ حق رکھتے ہیں ۔موجودہ حالات میں اس قسم کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں ۔ پنچایت میں بھی یہ معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی بچی لاوارث ہو اور اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو جو سرپرست کے طور پر اس کے مفادات کا خیال کر سکے تو اس صورت میں بھی اسلامی سطلنت کو سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ مسئلہ ولایت نکاح کی مزید تحقیق و تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب ’’ مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ