كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ نِكَاحِ الصِّغَارِ يُزَوِّجُهُنَّ الْآبَاءُ صحیح حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَوُعِكْتُ، فَتَمَرَّقَ شَعَرِي حَتَّى وَفَى لَهُ جُمَيْمَةٌ، فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ، وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي، فَصَرَخَتْ بِي، فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ، فَأَخَذَتْ بِيَدِي فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ عَلَى وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ضُحًى، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل
باب: والد چھوٹی بچی کا نکاح ( اس سے پوچھے بغیر) کر سکتا ہے
حضرت عائشہ ؓا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ سال تھی۔ ہم (ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلے میں ٹھہرے۔ (ایک بار ایسا ہوا کہ) مجھے بخار آیا تو میرے سر کے بال جھڑ گئے حتی کہ کندھوں تک لٹکتے ہوئے تھوڑے سے بال رہ گئے۔ (ایک دن) میں جھولا جھول رہی تھی اور میرے ساتھ چند سہیلیاں بھی تھیں کہ میری والدہ ام رومان ؓا نے آ کر مجھے آواز دی۔ میں ان کے پاس گئی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے تک لے آئیں۔ میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ (تھوڑی دیر میں) میرا سانس کچھ ٹھیک ہو گیا۔ امی جان نے پانی لے کر میرا سر منہ دھویا، پھر مجھے گھر کے اندر لے گئیں، دیکھا تو گھر میں چند انصاری خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے کہا: (علي الخير والبركة‘ وعلي خير طائر) خیروبرکت کے ساتھ آؤ، تمہاری قسمت اچھی ہو۔ امی جان نے مجھے ان خواتین کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے میری حالت کو درست کیا (کنگھی پٹی کی اور زیب و زینت کر کے دلہن بنا دیا۔) مجھے تبھی پتہ چلا جب چاشت کے وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور خواتین نے مجھے آپ ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ اس وقت میری عمر نو سال تھی۔
تشریح :
1۔نا بالغ بچی کا نکاح درست ہے ۔
[ارجوحۃ ] ’’ جھولا‘‘ ایک بڑی لکڑی ہوتی ہے جو درمیان سے اونچی جگہ رکھی ہوتی ہے ۔ بچے اس پر دونوں طرف بیٹھ جاتے ہیں ۔ جب وہ ایک طرف سے نیچے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے اوپر اٹھ جاتی ہے ۔ اسے انگریزی میں (See Saw) ’’ سی سا‘‘ کہتے ہیں ۔
رخصتی کے وقت دلھن کو آراستہ کرنا مسنون ہے ۔
رخصتی کے وقت ہمسایہ خواتین کا جمع ہونا اور تیاری میں مدد دینا درست ہے تاہم آج کل جو بے جا تکلفات اور رسم و رواج اختیار کر لیے گئے ہیں یہ خواہ مخواہ کی تکلیف ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔
اسی طرح بیوٹی پارلروں میں بھیج کر دلھن کو آراستہ کروانا فضول خرچی بھی ہے ، حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی بھی اور تغییر لخلق اللہ بھی ۔
اسلام میں برات کا کوئی تصور نہیں یہ ہندوانہ رسم ہے ۔ اسی طرح مروجہ جہیز بھی غیر اسلامی رسم ہے ۔
نوسال کی بچی بالغ ہو سکتی ہے اور بالغ ہونے پر اس کی رخصتی بھی ہو سکتی ہے ۔ اس میں کسی خاص عمر کی شرعا کوئی شرط نہیں ، اس لیے موجودہ عائلی قوانین میں مخصوص عمر کی شرط لگائی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
1۔نا بالغ بچی کا نکاح درست ہے ۔
[ارجوحۃ ] ’’ جھولا‘‘ ایک بڑی لکڑی ہوتی ہے جو درمیان سے اونچی جگہ رکھی ہوتی ہے ۔ بچے اس پر دونوں طرف بیٹھ جاتے ہیں ۔ جب وہ ایک طرف سے نیچے ہوتی ہے تو دوسری طرف سے اوپر اٹھ جاتی ہے ۔ اسے انگریزی میں (See Saw) ’’ سی سا‘‘ کہتے ہیں ۔
رخصتی کے وقت دلھن کو آراستہ کرنا مسنون ہے ۔
رخصتی کے وقت ہمسایہ خواتین کا جمع ہونا اور تیاری میں مدد دینا درست ہے تاہم آج کل جو بے جا تکلفات اور رسم و رواج اختیار کر لیے گئے ہیں یہ خواہ مخواہ کی تکلیف ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔
اسی طرح بیوٹی پارلروں میں بھیج کر دلھن کو آراستہ کروانا فضول خرچی بھی ہے ، حیا باختہ اور بے پردہ عورتوں کی نقالی بھی اور تغییر لخلق اللہ بھی ۔
اسلام میں برات کا کوئی تصور نہیں یہ ہندوانہ رسم ہے ۔ اسی طرح مروجہ جہیز بھی غیر اسلامی رسم ہے ۔
نوسال کی بچی بالغ ہو سکتی ہے اور بالغ ہونے پر اس کی رخصتی بھی ہو سکتی ہے ۔ اس میں کسی خاص عمر کی شرعا کوئی شرط نہیں ، اس لیے موجودہ عائلی قوانین میں مخصوص عمر کی شرط لگائی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔