Book - حدیث 1869

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ لَا يَخْطُبِ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي» ، فَآذَنَتْهُ، فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو الْجَهْمِ بْنُ صُخَيْرٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ تَرِبٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو الْجَهْمِ فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ» ، فَقَالَتْ بِيَدِهَا هَكَذَا: أُسَامَةُ، أُسَامَةُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ» ، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُهُ فَاغْتَبَطْتُ بِهِ

ترجمہ Book - حدیث 1869

کتاب: نکاح سے متعلق احکام و مسائل باب: پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینے کی ممانعت حضرت فاطمہ بنت قیس ؓا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تیری عدت ختم ہو جائے تو مجھے بتانا۔ (عدت ختم ہونے پر) انہوں نے آپ کو اطلاع دی۔ انہیں حضرت معاویہ، ابوجہم بن صخیر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم نے نکاح کے لیے پیغام بھیجے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معاویہ (ؓ) تو مفلس آدمی ہیں، ان کے پاس مال نہیں، ابوجہم (ؓ) عورتوں کو بہت مارتے ہیں لیکن اسامہ (ؓ بہترین ہیں۔ ) حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کر کے کہا: اسامہ! اسامہ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت تیرے لیے بہتر ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے بیان کیا: میں نے ان سے نکاح کر لیا، پھر مجھ پر رشک کیا گیا۔
تشریح : 1۔عورت کے کسی مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلینے سے پہلے دوسرا آدمی پیغام بھیج سکتا ہے ۔ اگر کسی کا عیب چھپانے سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ عیب ظاہر کر دیا جائے ۔ یہ صورت ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوتی ۔ حدیث کے راویوں پر جرح کرنے میں بھی یہی حکمت ہے کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں اسے غلطی سے شرعی حکم نہ سمجھ لیا جائے ، اس لیے یہ بھی جائز ہے ۔ جب کوئی غلام آزاد ہو جائے تو اسلامی معاشرے میں اس کا مقام و مرتبہ دوسرے آزاد افراد سے کم تر نہیں ہوتا۔ نبی ﷺ کا حکم ماننے میں فائدہ ہے اگرچہ بظاہر وہ ناگوار محسوس ہو ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اشارے کا مطلب عدم رضامندی کا اظہار تھا کیونکہ حضرت اسامہ کے والد محترم حضرت زید کچھ عرصہ غلام رہ چکے تھے ۔ 1۔عورت کے کسی مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلینے سے پہلے دوسرا آدمی پیغام بھیج سکتا ہے ۔ اگر کسی کا عیب چھپانے سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ عیب ظاہر کر دیا جائے ۔ یہ صورت ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوتی ۔ حدیث کے راویوں پر جرح کرنے میں بھی یہی حکمت ہے کہ جو حکم رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں اسے غلطی سے شرعی حکم نہ سمجھ لیا جائے ، اس لیے یہ بھی جائز ہے ۔ جب کوئی غلام آزاد ہو جائے تو اسلامی معاشرے میں اس کا مقام و مرتبہ دوسرے آزاد افراد سے کم تر نہیں ہوتا۔ نبی ﷺ کا حکم ماننے میں فائدہ ہے اگرچہ بظاہر وہ ناگوار محسوس ہو ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اشارے کا مطلب عدم رضامندی کا اظہار تھا کیونکہ حضرت اسامہ کے والد محترم حضرت زید کچھ عرصہ غلام رہ چکے تھے ۔